کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 148
شرح:… رب تعالیٰ کی صفت کلام پر تفصیلی کلام: ان دونوں آیات اور اس کے بعد کی مذکورہ آیات میں رب تعالیٰ کی صفت کلام کا اثبات ہے۔ لوگوں نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ نزاع کیاہے۔ مثلاً ٭ بعض نے ’’کلامِ الٰہی‘‘ کو رب تعالیٰ کی ذات سے الگ، مخلوق قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک متکلم سے مراد کلام کا خالق ہے۔ یہ معتزلہ کا شگوفہ ہے۔ ٭ بعض نے کلام کو رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ازل و ابد سے لازم قرار دیا ہے جس کا اس کی قدرت و مشیئت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ لوگ رب تعالیٰ سے (اس کے کلام کے) حروف اور (ان کی) اصوات کی نفی کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک کلام ازل میں ’’معنی واحد‘‘ ہے۔ یہ کلابیہ اور اشعریہ کے علمی تراشے ہیں ۔ ٭ بعض غالیوں نے یہ علمی شہ پارہ پیش کیا ہے کہ کلام یہ حروف اور اصوات ہیں جو قدیم اور ذاتِ الٰہی کو لازم ہیں اور ازل سے اللہ کی ذات کے ساتھ ملے ہیں اور رب تعالیٰ ان حروف و اصوات کے ساتھ وقتاً فوقتاً کلام نہیں فرماتا۔ ٭ بعض نے کلام کو حادث مگر ذاتِ الٰہیکے ساتھ قائم قرار دیا ہے کہ یہ مشیئت الٰہی کے متعلق ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس کا یہ (انوکھا) گمان ہے کہ کلام کی ابتداء ذات الٰہیمیں ہوئی اور اللہ ازل سے متکلم نہ تھا۔ یہ کرامیہ کی نکتہ سنجی ہے۔ (غرض ان نا معقولوں کے تعجب خیز خیالات کو بیان کرنے کہاں تک جایئے) اور اگر ہم ان کے فاسد ہونے کو بیان کرنے اور ان پر علمی محاکمہ کرنے بیٹھ گئے تو بات اور بڑھ جائے گی، اس پر مستزادیہ کہ ہر فہم سلیم اور مستقیم فکر ونظر کا مالک ان کے فاسد ہونے کو خوب جانتا ہے۔ دریا بہ کوزہ بند: خلاصہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اہل سنت و الجماعت کا مذہب یہ ہے کہ رب تعالیٰ ازل سے متکلم ہے اور جب چاہے متکلم ہو۔ کلام اس کی صفت ہے، اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ اس صفت کے ساتھ اپنی قدرت و مشیئت سے تکلم کرتا ہے، وہ ازل سے متکلم تھا اور ہمیشہ متکلم رہے گا، اور رب تعالیٰ جو کلام فرماتے ہیں وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے، مخلوق نہیں جو اس کی ذات سے جدا ہو جیسا کہ معتزلہ کا قول ہے اور نہ وہ اس کی ذات کو اس طرح لازم ہے جس طرح اس کو اس کی