کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 143
حروف جارہ ایک دوسرے کے معانی میں استعمال ہوتے رہتے ہیں : ’’فی السماء‘‘ کی ترکیب سے یہ نہ سمجھا جائے کہ آسمان اللہ کے لیے ظرف ہے (کہ فی ظرفیت کے لیے آتا ہے اور ’’فی‘‘ کا مدخول ظرف اور ماقبل مذکور مظروف ہوتا ہے اور ظرف کا مظروف کو محیط ہونا بھی ہے۔ لہٰذا یہ نہ سمجھا جائے کہ آسمان اگر ظرف ہے تو باری تعالیٰ کی ذات کو محیط ہے کہ اس کو کوئی محیط نہیں ۔) بلکہ اگر آسمان سے مراد یہ معروف آسمان ہے (جس کو بچہ بچہ جانتا ہے) تو پھر یہاں ’’فی‘‘ ’’علیٰ‘‘ حرفِ جر کے معنی میں ہو گا۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی ’’فی‘‘ ’’علی‘‘ کے معنی میں ہے: ﴿لَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾ (طہ: ۷۱) ’’اور کھجور کے تنوں پر سولی چڑھوا دوں گا۔‘‘ اگر یہاں آسمان سے مراد جہت علو ہے تو پھر ’’فی‘‘ اپنے حقیقی معنی میں ہے کیوں کہ رب تعالیٰ بلند ترین بلندی میں ہے۔ _________________________________________________ اصل متن :… وقولہ: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنْ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ (الحدید: ۴) ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ _________________________________________________ شرح:… رب تعالیٰ کی صفت معیت کا بیان: یہ آیت رب تعالیٰ کی صفت معیت کے اثبات کو متضمن ہے۔ معیت کی اقسام: معیت کی دو قسمیں ہیں ، معیت عامہ شاملہ (اور معیت خاصہ) معیتِ عامہ: یہ رب تعالیٰ کی وہ معیت جو رب تعالیٰ کی تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ چناں چہ رب تعالیٰ اپنے علم، قدرت، قہر اور احاطہ کے ساتھ ہر چیز کے ساتھ ہے، نہ کوئی شی اس سے اوجھل