کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 139
پہلے کہاں تھا؟ ’’این کان ربنا قبل ان یخلق السموات والارض‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’بادلوں (فضا) میں ۔‘‘[1] اس حدیث میں یہ بات مروی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو اس سوال پر ڈانٹا ہو یا یہ فرمایا ہو کہ تم نے کتنا غلط سوال کیا ہے۔ ان عقل کے ماروں شیخی خوروں کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اللہ (اس وقت بھی) تھا جب کوئی مکان (یعنی عرش وغیرہ) نہ تھا۔ پھر اس نے مکان پیدا کیا مگر وہ اب بھی ویسے ہی ہے جیسے مکان کی تخلیق سے قبل تھا۔‘‘ اب اس قول کہ ’’اللہ تھا لیکن اس وقت کوئی مکان نہ تھا‘‘ میں ’’مکان‘‘ سے اس فاتر العقل کی نہ جانے کیا مراد ہے؟ کیا اس کی مراد وہ اماکن وجودیہ ہیں جو ’’محیط عالم‘‘ (کائنات کے دائرہ) میں داخل ہیں ؟ تو پھر یہ اماکن تو حادث ہوئیں ۔ (اور ہر حادث مخلوق ہے) اور ہم اس بات کے قائل نہیں کہ رب تعالیٰ کا وجود ان اماکن حادثہ میں سے کسی میں موجود ہو کیوں کہ مخلوقات میں سے کوئی شی بھی اس کے وجود کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ جب وہ اس سے مراد مکانِ عدم لے جو خلائے محض ہے جس میں کوئی وجود نہیں تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہیں تھا پھر اس کو پیدا کیا گیا، کیوں کہ یہ امر عدلی ہے ’’خلق‘‘ یعنی پیدا کرنا اس کے متعلق نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ رب تعالیٰ ایک مکان میں ہے اس معنی میں ہے جس کو قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہے تو اس میں کون سا محذور لازم آتا ہے؟ استواء علی العرش کی بابت حق تفسیر: حق بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ سب سے پہلے اللہ تھا، اس سے پہلے کوئی شخص نہ تھا، پھر اللہ نے چھ دن میں زمین و آسمان بنائے اور اس کا عرش پانی پر تھا پھر وہ عرش پر جا کر ٹھہرا۔یاد رہے کہ ہم نے اس پوری عبارت میں جو حرف عطف ’’ثم‘‘ ذکر کیا ہے، وہ ترتیب زمانی کے لیے ہے صرف عطف کو بتلانے کے لیے نہیں ۔
[1] اسنادہ حسن، اخرجہ الترمذی: کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ ھود، حدیث رقم: ۳۳۱۰۔