کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 138
کے بارے میں ان کا ایمان ہے کہ اس کو اللہ ہی جانتا ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دوسرے حضرات کا قول ہے: ’’الاستواء (کا معنی) معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے (اور ایسی باتوں کا سوال کرنا بدعت ہے)
معطلہ کا شور شرابا سننے کے لائق نہیں :
معطلہ جو شور ڈالتے ہیں کہ استواء کو ثابت کرنے سے فلاں فلاں باتیں لازم آتی ہیں ، وہ ہم کو لازم نہیں آتیں کیوں کہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ رب تعالیٰ کی عرش سے فوقیت ایک مخلوق کی دوسری مخلوق سے فوقیت کی طرح ہے۔
معطلہ کی ہرزہ سرائیاں :
رہ گئیں معطلہ کی نامشکور کوششیں تو ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے آیات کے صریح معانی کو ان کے ظاہر سے پھیر دیا ہے، جو ان کی حیرت و اضطراب پر دلالت کرتی ہیں ۔ جیسے ’’استوی‘‘ کی تفسیر ’’اِسْتَوْلَیْ‘‘ سے کرنا (یعنی وہ عرش پر غالب ہوا)
’’علی‘‘ حرفِ جر کو ’’الٰی‘‘ حرف کے معنی پر عمل کرنا (یعنی اس نے عرش کی طرف قصد کیا اور رخ کیا) اور ’’استویٰ‘‘ یہ ’’قَصَدَ‘‘ (اس نے ارادہ کیا) کے معنی میں ہے۔
ان سب عبارات کو تجھم اور تعطیل کے علمبردار علامہ زاہد الکوثری نے ان سے نقل کیا ہے کہ یہ سب کا سب باطل شور شرابا اور حق کو بدلنا ہے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا۔ کاش مجھے یہ علم ہو جاتا کہ آخر ان بے ہودہ باتوں سے یہ معطلہ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟
کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آسمان میں کوئی رب نہیں جس کی طرف رخ کیا جائے؟
یا عرش کے اوپر کوئی رب نہیں جس کی عبادت کی جائے؟
تو پھر رب کہاں ہے؟ (این یکون اذاً؟)
ہو سکتا ہے کہ جب ہم رب تعالیٰ کے بارے میں لفظ ’’این‘‘ کے ذریعے سوال کریں تو یہ معطلہ ہمارا مذاق اڑائیں تو انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ رب تعالیٰ کی کامل ترین مخلوق، رب تعالیٰ کی ذات کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی ذات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک لونڈی سے سوال کرتے ہوئے رب تعالیٰ کے بارے میں پوچھا: ’’این اللہ؟‘‘ اللہ کہاں ہے؟ اور جب اس نے جواب میں کہا: ’’فی السماء‘‘ ’’آسمانوں میں ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے۔ اور خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس بات کا سوال کیا گیا کہ رب تعالیٰ زمین و آسمان کی تخلیق سے