کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 137
شرح:…
’’اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ‘‘ کا ثبوت قطعی ہے:
ان سات آیات میں رب تعالیٰ نے اپنے عرش پر مستوی ہونے کی خبر دی ان کا ثبوت قطعی ہے کیوں کہ یہ مواقع قرآن میں مذکور ہیں لہٰذا کسی جہمی اور معطلی کے لیے اس کا ردو انکار ممکن نہیں ۔
استواء کے معانی کا بیان:
اس طرح یہ اپنے باب میں صریح بھی ہیں جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ۔ کیوں کہ لغت عرب میں جب ’’استویٰ‘‘ کا فعل ’’عَلٰی‘‘ کے صلہ کے ساتھ متعدی ہو کر استعمال ہوتا ہے تو اس سے صرف علو (بلندی) اور ارتفاع (اونچا ہونے) کا معنی ہی سمجھ میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاف کی جملہ تفسیریں اس لفظ کی تفسیر و تشریح میں چار عبارات سے باہر نہیں جن کو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے ’’قصیدۂ نونیہ‘‘ میں بیان کیا ہے، وہ اشعاریہ ہیں :
فَلَھُمْ عِبَارَاتٌ عَلَیْھَا اَرْبَعٌ قَدْ وَصَلَتْ لِلْفَارِسِ الطَّعَّانِ
’’استوی‘‘ کی تعبیر میں مفسرین نے چار عبارات پیش کی ہیں جو (میدان علم کے) حقائق و نکات کو اخذ کرنے والے ماہر نیزہ باز کو ہی حاصل ہو سکتی ہیں ۔
وَھِیٌ اِسْتَقَرٌّ، وَ ’’قَدْعَلَا‘‘ وَکَذَلِکَ اِرْ تَفَعَ الَّذِیْ مَا فِیْہِ مِنْ نُکْرَانِ
اور وہ چار تعبیریں اور تفسیریں یہ ہیں کہ اس کا ایک معنی ہے ’’اِسْتَقَرَّ‘‘ (اس نے قرار پکڑا) دوسرا معنی ہے ’’قَدْ عَلَا‘‘ (وہ بلند ہوا) اور اسی طرح تیسرا معنی ہے ’’قَدِارْتَفَعَ‘‘ (وہ اونچا ہوا) جس (کے ممکن ہونے) میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔
وَکَذَاکَ ’’قَدْصَعِدَ‘‘ الَّذِیْ ھُوَ رَابِعٌ وَاَبُوْ عُبَیْدَۃَ صَاحِبْ الشَّیْبَانِیْ
یَخْتَارُ ھَذَا الْقَوْلَ فِیْ تَفْسِیْرِہِ اَدْرَیْ مِنَ الْجُھَمِیٍّ بِالْقُرْاٰنِ
اسی طرح چوتھا معنی اور تعبیر ہے ’’قَدْ صِعِدَ‘‘ (وہ اوپر ہوا) اور یہی وہ قول ہے جس کو ابوعبیدہ صاحب شیبانی نے اپنی تفسیر میں اختیار کیا ہے جو جہمیوں سے کہیں بڑھ کر قرآن (اور اس کی تعبیر و تفسیر) کو جاننے والے ہیں ۔
اہل سنت و الجماعت کا مسلک:
رب تعالیٰ نے اپنے بارے میں جس بات کی بھی خبر دی ہے، جیسے وہ اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے، اہل سنت و الجماعت ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کیفیت