کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 135
لاتے)۔ چناں چہ ان علماء نے رب کی حرام کردہ باتوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام بنا لیا ہوا تھا اور یہ اہل کتاب اس بابت ان کی (اندھی) پیروی کرتے تھے۔ (معنوی اعتبار سے) ارشاد باری تعالیٰ ’’مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا‘‘ واقع کے بیان کی قید ہے کہ اللہ کے سوا جس چیز کی بھی عبادت اور اطاعت کی جائے گی وہ واقع میں بلادلیل ہوئی۔ رب تعالیٰ کی بابت بلا علم باتوں کی تفسیر: اس میں رب تعالیٰ کی بابت کسی محبت و دلیل کے بغیر دی جانے والی ہر خبر شامل ہے۔ جیسے ایسی بات کا اثبات کرنا جس کی اللہ نے نفی کی یا ایسی بات کی نفی کرنا جس کا اس نے اثبات کیا یا تاویل و تحریف کے ذریعے اس کی آیات میں اتحاد کا ارتکاب کرنا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ’’اعلام الموقعین‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’رب تعالیٰ نے فتویٰ و قضا وغیرہ میں اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ اس کی بابت کوئی بات علم کے بغیر کہی جائے اور اس کو سب سے بڑا حرام ٹھہرایا ہے بلکہ اس کو حرمت کے بہت بڑے درجہ پر مقرر کیا ہے۔ انہیں باتوں میں ایک اس آیت میں بیان کی ہے، فرمایا: ﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ﴾(الاعراف: ۳۳) اس آیت میں رب تعالیٰ نے محرمات کے چار درجات بیان فرمائے ہیں : پہلا درجہ:…فواحش: یہ سب سے معمولی حرام ہے۔ دوسرا درجہ:… گناہ اور ظلم: جو حرمت میں اس سے زیادہ سنگین ہے۔ تیسرا درجہ:… شرک: جو ان دونوں سے کہیں بڑھ کر اشد اور خطرناک حرام ہے۔ چوتھا درجہ:… رب تعالیٰ کی بابت بلا علم کوئی بات کہنا کہ اس کو رب تعالیٰ نے سب سے بڑا حرام قرار دیا ہو اور اس میں رب تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کے بارے میں اور اس کے دین و شرع کے بارے میں بلا علم کوئی بات کہنا سب شامل ہے۔‘‘[1] _________________________________________________ اصل متن :… وقولہ: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طہٰ: ۵) فی سبعۃ موافع… فی سورۃ الاعراف قولہ: ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف: ۵۴)
[1] اعلام الموقعین: ۱/۳۸۔