کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 130
معرض، گڑھے یا جوہڑ کو ’’البِرکۃ‘‘ کہتے ہیں کیوں کہ اس میں پانی ٹھہرا رہتا ہے مگر ’’البَرکہ‘‘ کی یہ توجیہ بعیداز احتمال ہے۔
فرقان تنزیل، عبد اور عالمین کی مراد اور تشریح:
فرقان سے مراد قرآن ہے اور قرآن کا نام فرقان اس لیے رکھا گیا کیوں کہ قرآن میں حق کو باطل سے اور ہدایت کو گمراہی سے جدا کرنے کی قوت ہے اور قرآن اتارنے کو ’’نَزَّلَ‘‘ (باب تفعیل سے) تشدید کے ساتھ اس لیے تعبیر کیا تاکہ قرآن کے تدریجی نزول کو بتلایا جا سکے کہ قرآن ’’دفعۃً واحدۃً ‘‘ (یکبارگی) نہیں اترا (بلکہ تھوڑا تھوڑا وقتاً فوقتاً رب تعالیٰ کی حکمت کے مطابق اترتا رہا ہے، جس میں بندوں کی مصالح کو ملحوظ رکھا گیا۔)
’’عَبْدِہٖ‘‘ سے مراد جناب رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بندے‘‘ کے لقب سے ملقب کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت افزائی اور بزرگی کو بتلانا مقصود ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
’’عالمین‘‘ یہ ’’عالَم‘‘ کی جمع ہے اور یہ ذوی العقول کے لیے آنے والے جمع کے وزن پر جمع کا صیغہ ہے اس کی مراد میں علماء کا اختلاف ہے، ایک قول انسان کا اور ایک قول انسان اور جن دونوں کا ہے اور یہی صحیح ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کی طرف بھی پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں :
(قرآن و حدیث کی صریح نصوص سے) یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں کی طرف بھی پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو اکٹھا فرما کر انہیں قرآن سنایا کرتے تھے اور جنوں کی ایک جماعت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزری اور اس نے قرآن کو سنا تو وہ اسلام لے آئی اور انہوں نے جا کر اپنی قوم کو بھی ڈرایا۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿وَاِِذْ صَرَفْنَآ اِِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْا اَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِِلٰی قَوْمِہِمْ مُنْذِرِیْنَ﴾(الاحقاف: ۲۹)
’’اور جب ہم نے جنوں میں سے کئی شخص تمھاری طرف متوجہ کیے کہ قرآن سنیں ، تو جب وہ اس کے پاس آئے تو (آپس میں ) کہنے لگے: ’’خاموش رہو‘‘ جب (پڑھنا) تمام ہوا تو اپنی برادری کے لوگوں میں واپس گئے کہ ان کو نصیحت کریں ۔‘‘