کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 129
تسبیح زبانِ حال سے ہوتی تو وہ معلوم ہوتی، پھر ان کی تسبیح سے استدراک[1] کرنا درست نہ ہوتا۔ (اور جمادات کی تسبیح کے زبان قال سے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ) رب تعالیٰ سیدنا داؤد علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
﴿اِِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِِشْرَاقِo وَالطَّیْرَ مَحْشُورَۃً کُلٌّ لَہٗ اَوَّابٌ﴾ (ص: ۱۸،۱۹)
’’ہم نے پہاڑوں کو ان کے زیر فرمان کر دیا تھا کہ صبح و شام ان کے ساتھ (اللہ) پاک (کا) ذکر کرتے تھے اور پرندوں کو بھی کہ جمع رہتے تھے۔ سب ان کے فرمانبردار تھے۔‘‘
_________________________________________________
اصل متن :… و قولہ: ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًاo نِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا﴾ (الفرقان: ۱،۲)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وہ(اللہ عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل عالم کو ہدایت کرے، وہی کہ آسمانوں اور زمینوں میں بادشاہی اسی کی ہے، جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا، جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ، اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
برکت کی تفسیر:
’’تَبَارَکَ‘‘ کا معنی ’’برکۃ‘‘ سے ہے جس کا معنی ہے خیر کی کثرت و دوام لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کثرت سے پہلے کمی تھی کیوں کہ برکت سے مراد رب تعالیٰ کی قدرت و مشیئت کے تابع کمالات اختیاریہ میں تجدد ہے کہ یہ کمالات اختیاریہ رب تعالیٰ کی ذات میں اس کی حکمت کے موافق متجدد ہوتے رہتے ہیں ۔ لہٰذا حکمت الٰہی کے ان کمالات اختیاریہ کو مقتضی ہونے سے پہلے ان کمالات کا نہ ہونا نقص اور کمی باور نہیں کی جا سکتی۔
بعض نے ’’تَبَارَکَ‘‘ کی تفسیر ثبات اور عدم تغیر سے کی ہے اور اسی معنی میں کچے تالاب،
[1] استدراک کلام سابق میں پیدا ہونے والے وہم کے دور کرنے کو کہتے ہیں ۔ ’’التوضیحات: اصطلاح نمبر ۸۶، ص: ۱۸۔‘‘