کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 127
مشرکوں کی بتوں کے ساتھ والہانہ محبت کی حقیقت :
سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت ’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ……‘‘ میں مشرکین کے بارے میں یہ بتلایا گیا کہ وہ اپنے بتوں کے ساتھ اللہ کی سی محبت کرتے ہیں یعنی محبت میں انہوں نے ان بتوں کو رب تعالیٰ کے برابر رکھا ہے جب کہ مشرکوں کی اپنے بتوں سے محبت سے بڑھ کر اہل ایمان اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ محبت رکھتے ہیں کیوں کہ ان کی رب تعالیٰ کے ساتھ محبت خالص اور بلا شرکت ہے جب کہ مشرکوں نے اپنے بتوں کے ساتھ اپنی محبت خود ان متعدد بتوں میں بانٹ رکھا ہے (اس لحاظ سے ان کی کسی ایک بت کے ساتھ بھی محبت خالص اور بلا شرکت غیرے نہ ہوئی) اور یہ بات بے غبار ہے کہ جب محبت ایک ہی ذات کے لیے ہو وہ زیادہ جاگزیں اور قوی ہوتی ہے۔
اس آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنے بتوں سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح مومنین رب تعالیٰ سے کرتے ہیں جب کہ اہل ایمان کی رب تعالیٰ سے محبت مشرکوں کی اپنے بتوں سے محبت سے کہیں بڑھ کر ہے۔
رب تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے، نہ شریک اور نہ وہ عاجز اور مدد کا خواستگار ہے:
سورۂ اسراء کی مذکورہ آیت میں ’’حمد‘‘ کا ذکر ہے جس کی تعریف، اشتقاق، اقسام وغیرہ پر تفصیلی کلام گزر چکا ہے۔
اس آیت میں رب تعالیٰ نے اپنی حمد کو ثابت کیا پھر اپنی ذات سے ان باتوں کی نفی کی جو اس کی حمد کے کمال کے منافی ہیں ۔ جیسے اولاد، شریک اور عاجزی و احتیاج کی بنا پر کسی مددگار ومعاون کا نہ ہونا وغیرہ کہ رب تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی کو فقرو محتاجی کی بنا پر اپنا مددگار نہیں بنا رکھا اور نہ وہ اس کا محتاج ہے۔
رب تعالیٰ مشرکین کی ہرزہ سرائیوں سے بلند و برتر ہے:
اس کے بعد رب تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ رب تعالیٰ کی تعظیم اور بڑائی بیان کریں اور اسے ہر اس نقص و عیب سے منزہ اور پاک قرار دیں جو رب تعالیٰ کے مشرک دشمن اس کی ذات کی بابت بیان کرتے ہیں ۔
_________________________________________________
اصل متن :… وقولہ: ﴿یُسَبِّحُ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (التغابن: ۱)