کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 126
اسی طرح ان آیات میں رب تعالیٰ کے لیے بادشاہت، حمد، قدرت، کبریائی کا بھی اثبات یہ ہے۔ اللہ کا کوئی ہم نام نہیں : ’’ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا‘‘ کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اہل لغت کے بقول ’’سمی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رب تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا نظیر نہیں ہے جو اس کے جیسے نام کا مستحق ہو اور اس کے بارے میں کہا جا سکے کہ وہ رب تعالیٰ کا ایسا ہم نام ہے جو اس کے ہم پلہ، ہم رتبہ اور عزت و شرافت میں اس کے برابر ہے۔ اور یہی وہ معنی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سمیَّ سے مراد مثیل اور شبیہ ہے۔[1] اور یہاں استفہام انکاری ہے یعنی تم اللہ کے کسی ہم نام کو نہیں جانتے۔ اللہ کا کوئی ہم سر نہیں : سورۂ اخلاص کو مذکورہ آیت میں کفو سے مراد ہے رتبہ وہ پلہ ہے۔ یہ آیت ہر اعتبار سے رب تعالیٰ کی ذات کے مثل، نظیر اور شبیہ کی نفی کرتی ہے کیوں کہ لفظ ’’احد‘‘ نکرہ ہے جو نفی کے تحت واقع ہوا ہے جو تعمیم کا فائدہ دیتا ہے۔ سورۂ اخلاص پر تفصیلی کلام پہلے گزر چکا ہے۔ وہاں مراجعت کر لی جائے۔ ’’انداد‘‘ کی تفسیر: ’’انداد‘‘ یہ ’’نِدٌّ‘‘ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے ’’ایسا نظیر جو مقابل ہو‘‘ اور کہا جاتا ہے، ’’لیس لہ ند ولا ضدٌ‘‘ کہ نہ کوئی اس کا ہم پلہ ہے اور نہ کوئی اس کی ضد ہے‘ اور مراد یہ ہے کہ نہ تو کوئی شی اس کے مقابل و ہم مرتبہ ہے اور نہ ہی کوئی شی اس کے متضاد و متنافی ہے۔ ’’وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْن‘‘ کی نحوی ترکیب: یہ جملہ گزشتہ مذکورہ فعل ’’فَلَا تَجْعَلُوْا‘‘ کی فاعل کی ضمیر سے حال ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تم یہ بات جانتے ہو کہ اس ایک اکیلے اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور وہی تمھارا رازق ہے اور جن بتوں کو تم نے اس کا مثل و نظیر ٹھہرا کر ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت میں برابر کا شریک ہونے کا مستحق ٹھہرایا ہے وہ کچھ بھی تو پیدا کرنے پر قادر نہیں بلکہ یہ خود تراشے جاتے ہیں ۔ (اپنے وجود میں آنے کے بت تراشوں کے محتاج ہیں ) اور یہ کسی نفع نقصان کے مالک نہیں تو ان کی عبادت چھوڑ دو صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت و تعظیم بجا لاؤ۔
[1] اگرچہ اس کی اسناد ضعیف ہے اور ابن جریر نے اس کو اپنی تفسیر (۹/۱۳۲) میں ذکر کیا ہے مگر اس کا مفہوم مسلمات شرعیہ و اعتقادیہ میں سے ہے۔