کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 124
بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ایک دفعہ سیدنا ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں ۔ آپ انہیں اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے تو رب تعالیٰ نے فرمایا: اے ایوب! کیا میں نے تمہیں اس بات سے غنی نہیں کر دیا تھا؟ عرض کرنے لگے: ’’کیوں نہیں ، (پر) تیری عزت کی قسم! مجھے تیری برکت سے استغناء نہیں ۔‘‘[1] حدیث دعا میں بھی ’’عزت‘‘ کا ذکر آتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درد والے کو یہ دعا پڑھنے کی تعلیم فرمائی: ((اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقَدْرَتِہِ مِنْ شَرِّمَا اَجِدُ وَ أحَاذِرُ۔)) ’’میں اللہ کی عزت و قدرت کی پناہ میں آتا ہوں اس چیز کے شر سے جس کو میں پا رہا ہوں اور (جس کے لاحق ہونے سے) میں ڈر رہا ہوں ۔‘‘[2] ’’عزت‘‘ کا (مذکورہ بالا معنی طاقت ور ہونا اور صاحب عزت ہونا اس وقت ہوتا ہے جب یہ باب ’’ضرب یضرب‘‘ سے (عَزَّ یَعِزُّ سے) ہو، لیکن جب یہ باب نصر ینصر یعنی (عَزَّ یَعُزُّ سے (ہو تو اس وقت اس کا) معنی غلبہ پانا، زیر کرنا اور قہر کرنا ہے لہٰذا جب کوئی کسی پر غالب آجائے تو کہتے ہیں ’’عَزَّہُ‘‘ ’’وہ اس پر غالب آگیا۔‘‘ اور جب یہ (باب حسب یحسب سے یعنی) عین کے فتحہ کے ساتھ عَزَّ یَعَزُّ ہو تو اس وقت اس کا معنی قوت اور سختی ہوتی ہے، اس معنیٰ میں سخت اور کہنا جاتا ہے ’’اَرْضٌ عَزَازٌ‘‘ سخت زمین (جس پر پانی نہ ٹھہرتا ہو)۔ اور جب یہ باب ضرب یضرب سے عَزَّیَعِزُّ ہو (جیسے کہ اوپر قوسین میں بتلایا گیا) تو اس کا معنی بلند مرتبہ، اونچی شان والا ہونا اور دشمنوں سے رکنا اورمحفوظ رہنا ہوتا ہے اور یہ سب معانی رب تعالیٰ کی ذات اقدس کے لیے ثابت ہیں ۔ برکت کی لغوی اور معنوی تفسیر کا بیان: (سورۂ رحمن کی مذکورہ آیت ’’تَبَارَکَ اسْمُ……‘‘ میں ذکر کردہ فعل ’’تَبَارَکَ‘‘ کہ یہ ’’البرکۃ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی، خیر کی کثرت اور اس کا دوام و بقاء ہے۔
[1] اخرجہ البخاری: کتاب الغسل باب من انتسل عریانا وحدہ فی خلوۃ مومن ستر فالستر افضل، حدیث رقم: ۲۷۹۔ [2] اسناد: صحیح اخرجہ الترمذی۔ کتاب الطب باب کیف یدفع الوجع عن نفسہ، حدیث رقم: ۲۰۸۰۔