کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 122
عفوودرگزر کی کامل ترین صورت:
جب عفوودرگزر کی کامل ترین صورت یہ تھی کہ کوئی انتقام اور مواخذہ کی قدرت کے ہوتے ہوئے معاف کرے اور عفو و درگزر کرے، تو اس آیت میں بھی اور دوسری آیت میں بھی ’’عفو‘‘ کو ’’قدرت‘‘ کے ساتھ ملا کر رب تعالیٰ کے ان دو ناموں ’’عفو اور تدبر‘‘ کو ذکر کیا۔
قدرت کی تفسیر:
قدرت رب تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا ممکنات کے ایجاد کرنے اور انہیں معدوم کرنے کے ساتھ تعلق ہے۔ چناں چہ اس کائنات میں جو کچھ بھی واقع ہوا ہے وہ رب تعالیٰ کی قدرت و مشیئت سے واقع ہوا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:
’’جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔‘‘[1]
ستانے والوں سے بھی درگزر کیجیے!
سورۂ نور کی مذکورہ آیت ’’وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا……‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کےبارے میں نازل ہوئی کہ جب انہوں نے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ پر خرچ نہ کرنے کی قسم اٹھالی۔ کیوں کہ یہ بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے واقعۂ افک (سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے) میں حصہ لیا تھا جب کہ مسطح رضی اللہ عنہ کی ماں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ زاد بہن تھیں (مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے مسطح پر خرچ نہ کرنے کی قسم اٹھالی) اس پر یہ آیت نازل ہوئی (کہ ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے)۔ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (قرآن کریم کے اس پروقار بیان کو سن کر بے ساختہ) کہا: ’’اللہ کی قسم! مجھے یہ بات پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے‘‘ اور مسطح رضی اللہ عنہ پر دوبارہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔‘‘[2]
عبداللہ بن ابی کی رسوائی:
سورۂ منافقون کی آیت ’’وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کا قصہ یہ ہے کہ ایک غزوہ میں (واپسی کے سفر میں ) اس نے (منافقانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کھلے بندوں ) اس بات کی قسم اٹھائی (جس کو بھرے مجمع نے سنا) کہ ’’وہ اور اس کے ساتھی (معاذ اللہ) مدینہ (پہنچ کر وہاں ) سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
[1] اسنادہ ضعیف اخرجہ ابو داؤد کتاب الادب باب ما یقول اذا اصبح حدیث رقم: ۵۰۷۵۔
[2] البخاری: کتاب الشہادات باب تعدیل النساء بعضھن بعضاً۔ حدیث رقم: ۲۶۶۱۔