کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 120
خبر تک نہ ہو، چناں چہ جب بھی وہ کسی گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں رب تعالیٰ نے انہیں ایک اور نعمت سے نوازتا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’جب تم دیکھو کہ رب تعالیٰ (گناہ پر اور) اس کی نافرمانی ڈٹے رہنے والے ایک شخص کو دنیا کی ہر وہ چیز دیتا جا رہا ہے جو اسے پسند ہے تو جان لو کہ یہ رب تعالیٰ کی طرف سے (اسے) ڈھیل ہے۔‘‘[1]
یہود نا مسعود اپنی ہر تدبیر میں رسواء ہیں :
(سورۂ آلِ عمران کی) یہ آیت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی جب یہودیوں نے ان کے قتل کا (ناپاک اور گھناؤنا) ارادہ کیا۔ چناں چہ آپ ایک ایسے کمرے میں داخل ہوئے جس میں (اوپر) ایک رو شندان تھا۔ رب تعالیٰ نے سیدنا جبرئیل علیہ السلام سے آپ کی مدد فرمائی اور وہ آپ کو اس روشندان سے نکال اوپر آسمانوں میں (زندہ جسد خالی کے ساتھ) چڑھا لے گئے۔ ادھر (بدبخت) یہوذا (یہودی) یہودیوں کو آپ تک پہچانے کے لیے تاکہ وہ (معاذ اللہ) آپ کو قتل کر سکیں ، آپ کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو رب تعالیٰ نے اس دغاباز غدار (کو اس کی خیانت و غداری کی سزا دینے کے لیے اس) کی شکل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جیسی بنادی۔ جب اس نے دیکھا کہ کمرے میں کوئی نہیں تو باہر آکر کہنے لگا کہ’’کمرے میں تو کوئی نہیں ‘‘ (اور اسے اس بات کی خبر تک نہ تھی کہ اس کی شکل قدرت الٰہی سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہو گئی ہے) پس یہودیوں نے (آؤ دیکھا نہ تاؤ اور) اس کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر مار ڈالا۔ اور یہی رب تعالیٰ کی وہ تدبیر ہے جس کو اس نے اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا ہے: ’’وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ‘‘[2]
قوم صالح کے نو بد معاشوں کی تدبیر کا الٹنا:
(سورۂ نمل میں مذکورہ ارشاد) ’’وَمَکَرُوْا مَکْرًا‘‘ یہ قوم صالح علیہ السلام کے ان نو بدمعاشوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اس بات پر قسم اٹھائی کہ وہ رات کی بے خبری میں سیدنا صالح علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو (معاذ اللہ) قتل کر دیں گے اور ساتھ ہی ان کے ورثاء کو اس بات کی گواہی دے دیں گے کہ ہمیں تو ان کے مارے جانے کی کوئی خبر ہی نہیں اور) ہم ان کے قتل میں موجود نہ تھے ان لوگوں کے اس مکر کا انجام یہ ہوا کہ رب تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ تدبیر کی اور ان نو کے نو سب کو اور
[1] اسنادہ صحیح، مسند احمد: ۴/۱۴۵۔
[2] اسنادہ ضعیف، اور وہ ابن کثیر فی تفسیرہ: ۱/۳۹۲، وابن جریر فی الطبری و فی سندہ مسدی ضعیف۔