کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 117
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’سب تعریفیں اس ذات کی ہیں جس کی صفت سمع نے سب آوازوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ تحقیق وہ جھگڑنے والی عورت (خولہ) خدمت رسالت میں حاضر ہو کر اپنی فریاد اور شکوہ و شکایت کر رہی تھی، جب کہ میں گھر کے ایک گوشے میں اس کی باتیں سن رہی تھی کہ رب تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :
﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا اِِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ﴾ (المجادلۃ: ۱)[1]
دوسری آیت: یہ آیت خبیث یہودی فخاص کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب حضرت صدیق اکبر نے اسے ایمان لے آنے کی دعوت دی تو وہ بارگاہ الٰہی میں گستاخی کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’اے ابوبکر! اللہ کی قسم! ہمیں کسی تنگدستی کی بنا پر اللہ کی احتیاج نہیں ، محتاج تو وہ ہمارا ہے، اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض نہ مانگتا۔‘‘[2]
تیسری آیت: اس آیت میں ’’اَمْ‘‘ ’’بَلٰ‘‘ اور ھمزہ استفہامیہ کے معنی میں ہے۔ اور یہ ’’اَمْ‘‘ منقطعہ[3] اور استفہام ’’انکاری‘‘ ہے۔ جو زجر و توبیخ کے معنی کو متضمن ہے۔ اور
آیت کا معنی یہ ہے ’’اَیْظن ھٰؤلاء …‘‘ یعنی کیا یہ لوگ جو اپنی راز کی باتوں اور سرگوشیوں کو چھپا، چھپا کر کرتے ہیں ، یہ گمان رکھتے ہیں ہم انہیں سن نہیں پاتے بلکہ ہم انہیں خوب سنتے ہیں اور ہمارے اعمال لکھنے والے فرشتے ان کے سامنے موجود ہیں جو ان کی ہر کہی اور کی بات کو لکھ رہے ہیں ۔
[1] اخرجہ البخاری عن عروۃ عن عائشۃ: کتاب التوحید باب ’’وکان اللّٰه سمیعا بصیراً تعلیقا‘‘۔
[2] مسلم: کتاب صفات المنافقین باب قول ’’ان الانسان لیطغیٰ ان راہ استغنی‘‘ حدیث رقم: ۳۷۹۷۔
[3] ’’اَم‘‘ یہ حروف عاطفہ میں ہے جس کی دو قسمیں ہیں : ایک متصلہ اور دوسرا مفقطعہ، متصلہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے دو میں سے ایک امر کی تعیین کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے جب کہ سائل مبہم طور پر دو میں سے کسی ایک ثبوت کو جانتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات ضرور ہے، اور اسی کی تعیین کے لیے وہ ’’ام‘‘ کے ذریعے سوال کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ام کے ذریعے کیے جانے والے سوال کا جواب تعیین کے ساتھ ہوتا ہے ناکہ نعم اور لا کے ساتھ۔ چناں چہ جب یہ سوال ہو گا کہ ’’ازید عندک ام عمرو‘‘ ’’کیا تیرے پاس زید ہے یا عمرو؟‘‘ تو جواب میں کسی ایک کی تعیین بتلائی جائے گی۔
’’ام‘‘ کی دوسری قسم ’’ام منقطعہ‘‘ہے، یہ ’’بل‘‘ (حرف اضراب) کے معنی میں ہوتا ہے جس میں ہمزہ استفہامیہ انکاریہ کا معنی بھی شامل ہوتا ہے۔ جیسے تم دور سے کسی شی کا وجود اور پرچھائیں دیکھو۔ اور پورے وثوق سے یہ کہو ’’انھا لَابل‘‘ یہ تو اونٹ ہے، پھر تمہیں شک ہو جائے کہ کہیں یہ بھیڑ بکری تو نہیں ، تو تم کہو ’’ام ھی شاۃ‘‘ نہیں بلکہ یہ تو بھیڑ ہے۔ کہ اب تم اپنی پہلی بات سے اعراض کر کے گویا کہ ایک نیا سوال کر رہے ہو اور یوں کہہ رہے ہو، ’’بل ھی شاۃ‘‘ نہیں بلکہ یہ تو بھیڑ ہے۔‘‘
اس کی مزید تفصیل اور شرائط استعمال کے لیے دیکھیں ’’ھدایۃ، ص: ۱۰۰۔۱۰۱‘‘