کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 116
شرح:… رب تعالیٰ کی صفت سمع، بصر اور رویت کا بیان: یہ (ساتوں ) آیات جن کو علامہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، رب تعالیٰ کے لیے صفت سمع، بصر اور رؤیت کے اثبات کو متضمن ہیں ۔ مادۂ ’’سَمِعَ‘‘ کے جملہ اشتفاقات کو آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ جیسے سَمِعَ، یَسْمَعُ،سَمِیْعٌ، نَسْمَعُ اور اَسْمَعُ۔ یہ رب تعالیٰ کی حقیقی صفت ہے جس کے ذریعے وہ سب آوازوں کو سنتا ہے، اس کی تفصیل گزشتہ میں بیان ہو چکی ہے۔ ’’بصر‘‘ رب تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کے ذریعے وہ ذاتوں اور رنگوں کا ادراک کرتا ہے اور (اس معنی کے لحاظ سے) رؤیت ’’بصر‘‘ کو لازم ہے۔ان دونوں صفات کا ذکر حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اشعری کی اس حدیث میں آتا ہے کہ ’’اے لوگو! ذرا تحمل سے کام لو، تم کسی بہرے اور غیر موجود کو نہیں پکارتے بلکہ تم ایک سننے والے دیکھنے والے کو پکارتے ہو، بے شک تم جس ذات کو پکارتے ہو وہ تمھاری سواری (اونٹنی) کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے۔‘‘[1] بت کریں آرزو اللہی کی شان ہے تیری کبریائی کی: سمع و بصر کسی ذات کے کمال کی دلیل ہیں اسی لیے رب تعالیٰ نے مشرکوں کو اس بات کا عار دلایا کہ تم ان کی عبادت کرتے ہو جو سننے اور دیکھنے کی صفت کمال سے بے بہرہ اور بے نصیب ہیں ۔ مذکورہ آیات کی اجمالی تفسیر: پہلی آیت: پہلی آیت خولہ بنت ثعلبہ کے بارے میں نازل ہوئی جب ان کے خاوند نے ان سے ظہار[2] کر لیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خاوند کی شکایت لے کر آئی اور گفتگو کرنے لگی (کہ یہ میرے خاوند نے مجھے کہہ دیا اور کیا اب میں اس کی بیوی باقی ہوں ) جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ فرما رہے تھے ’’میرا خیال ہے کہ تم اس پر حرام ہو چکی ہو۔‘‘ (اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔)
[1] البخاری، باب الدعا، حدیث رقم: ۶۳۸۴۔ [2] ظہار: اپنی بیوی یا اس کے کسی عام بدن کے حصے کو اپنی حقیقی، نسبتی یا رضاعی محرم عورتوں میں سے کسی کے ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ اس کو شرع شریف کی اصطلاح میں ظہار کہتے ہیں جیسے بیوی کو کہنا: ’’تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔‘‘ (القاموس الوحید، ص: ۱۰۳۵، بتصرفٍ و زیادۃٍ)