کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 114
میں کبھی تثنیہ کی تعبیر جمع سے بھی کر دی جاتی ہے اور کبھی واحد کو تثنیہ کا قائم مقام بنا کر بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ’’یدین‘‘ کی تفسیر میں اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے۔ (ان کے نظریۂ کے باطل ہونے کی) مزید (دلیل) یہ ہے کہ ان لوگوں کی بیان کردہ تفسیروں اور معانی میں لفظ عین کو کسی شخص کے حق میں اس وقت ہی استعمال کر سکتے ہیں جب اس کی ایک حقیقی آنکھ بھی تو ہو۔ تو کیا یہ معطلہ (ان بودی تفسیروں اور معانی کی آڑ میں ) یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے اپنی ذات کی ایک ایسی بات کے ساتھ مدح بیان فرمائی ہے جو اس کی ذات میں ثابت ہی نہیں ۔ چناں چہ (معاذ اللّٰه) رب تعالیٰ اپنے لیے ایک آنکھ کو ثابت کر رہے ہیں حالانکہ وہ اس سے خالی اور بے کار ہے۔ (واعاذانا اللّٰه من شر ذلک ونعوذ باللّٰه من سفساف الامورو سؤ الفھم۔ ) کیا یہ (بد دماغ) یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی اشیاء کو رویت اس کی کسی صفت خاصہ کے تحت نہیں بلکہ وہ ان سب کو بالذات دیکھتا ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں : ’’بے شک وہ اپنی ذات سے قادر ہو، وہ اپنی ذات سے ارادہ کرنے والا ہے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘ مذکورہ آیات کی اجمالی تفسیر: پہلی آیت میں رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے آنے تک انتظار کریں ، صبر کریں اور اپنی قوم کی ایذا رسانیوں کو برداشت کریں اور اس حکم کی علت یہ بیان فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت رب تعالیٰ کی نگاہوں میں اور اس کی عنایت و رعایت اور حفاظت و نگہداشت میں ہیں ۔ دوسری آیت میں رب تعالیٰ نے سیدنا نوح علیہ السلام کے بارے میں خبر دی ہے کہ جب ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا اور ان پر عذاب کے آنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور انہیں طوفان نے آپکڑا تو رب تعالیٰ نے سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان رفقاء کو ایک تختوں اور میخوں والی کشتی پر سوار کر لیا اور بتلایا کہ وہ کشتی رب تعالیٰ کی نگاہوں کے سامنے اس کی حفاظت میں چل رہی ہے۔ ’’دُسَر‘‘ یہ ’’دِسَارٌ‘‘ کی جمع ہے جو لوہے کی اس میخ کو کہتے ہیں جو لکڑی کے تختوں میں ٹھونکی جاتی ہے۔ تیسری آیت میں رب تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے خطاب فرما رہے ہیں کہ رب تعالیٰ نے ان پر اپنی محبت ڈال دی یعنی خود رب تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتے ہیں اور انہیں ساری مخلوق میں بھی محبوب بنا دیا اور انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا اور ان کی ایسی تربیت کی جس کی بنا پر وہ