کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 112
میں واحد بھی آیا ہے اور بعض میں جمع مگر اس میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں کیوں کہ (عرف میں ) جو کام دو سے کیا جاتا ہے اس کو ایک ہاتھ کی طرف بھی منسوب کیا جاتا ہے۔جیسے تم کہتے ہیں : ’’میں نے ایک آنکھ سے دیکھا، میں نے ایک کان سے سنا‘‘ اور مراد دو آنکھوں سے دیکھنا اور دو کانوں سے سننا ہوتا ہے۔دوسرے کبھی جمع دو یعنی تثنیہ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿اِِنْ تَتُوْبَآ اِِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا﴾ (التحریم: ۴)
’’اگر تم دونوں اللہ کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیوں کہ تم دونوں کے دل کج ہو گئے ہیں ۔‘‘
’’اب یہاں ’’قلوب‘‘ جمع کا صیغہ ہے حالانکہ قصہ دو ازواج مطہرات کا بیان ہو رہا ہے، اور ظاہر ہے ان کے دل ’’دو‘‘ ہیں ناکہ دو سے زائد۔ چناں چہ یہاں ’’قلوب‘‘ جمع ’’قلبان‘‘ تثنیہ کے معنی میں ہے) لہٰذا ’’قلوبکم‘‘ سے مراد ’’قلباکما‘‘ ہے۔
ید کے اثبات کی نہایت لطیف دلیل:
’’ید‘‘ کو قدرت اور نعمت پر کیوں کر محمول کر سکتے ہیں جب کہ کف (ہتھیلی) اصابع (انگلیاں ) یمین (داہنا) شمال (بایاں ) قبض (سمیٹنا لپیٹنا، مٹھی بند کرنا) بسط (پھیلانا، ہاتھ کشادہ کرنا) وغیرہ ان صفات کا روایات ثابتہ میں ذکر آتا ہے جو صرف ایک حقیقی ید کے لیے ہی ہو سکتے ہیں ۔
یہود کبھی اپنی فطرت سے باز نہیں آسکتے:
جب کہ دوسری آیت میں رب تعالیٰ نے نامراد یہودیوں (اللہ انہیں کہیں کا نہ رکھے) کی رب تعالیٰ کے بارے میں بے ہودہ بات کو بیان کیا اور جو وہ رب تعالیٰ کے بارے میں ھذیان بکتے تھے اس کو ذکر کیا ہے جب کہ رب تعالیٰ کی ذات ہرگز ہرگز بھی ایسی نہیں کہ رب تعالیٰ کا ہاتھ خرچ کرنے سے بندھا ہوا یعنی رکا ہوا ہے۔
پھر رب تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ان کی اول قول کے بالکل صفت کو ثابت کیا کہ اس کے دونوں ہاتھ دادو دہش کے لیے کھلے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے (اور جس پر اور جتنا چاہتا ہے) خرچ کرتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ
’’بے شک رب تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہے (اور وہ بخشش دعا کے لیے) دن رات کھلا (اور فراخ) رہتا ہے کہ خرچ کرنا اس کو کم نہیں کرتا۔‘‘[1]
[1] البخاری: کتاب التوحید باب قول اللّٰه تعالیٰ ’’لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ‘‘ حدیث رقم: ۴۱۱۔