کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 111
شرح:… رب تعالیٰ کے لیے صفت ثابت ہے: یہ دونوں آیتیں رب تعالیٰ کے لیے حقیقی صفت ید کے اثبات کے ذکر کو متضمن ہیں جو اس کی شان کے مناسب ہے۔پہلی آیت میں ابلیس شیطان کو اس بات پر ڈانٹا جا رہا ہے کہ اس نے اس آدم کے سامنے سجدہ کیوں نہ کیا جس کو رب تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔ ان آیات میں ’’یدین‘‘ کو قوت پر حمل کرنا ممکن نہیں کیوں کہ اپنی قدرت سے تو رب تعالیٰ نے ہر چیز کو اور ابلیس کو بھی پیدا فرمایا ہے تو پھر اس باب میں سیدنا آدم علیہ السلام کی کوئی امتیازی خصوصیت باقی نہ رہ گئی۔حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ’’رب تعالیٰ نے تین چیزوں کو اپنے دست مبارک سے پیدا فرمایا: آدم کو اپنے دست مبارک سے پیدا کیا، تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا اور جنت عدن (کے باغات وغیرہ) کو اپنے ہاتھ سے لگایا۔‘‘[1] پس ان تینوں چیزوں کو بالخصوص ذکر کرنا جب کہ وہ بھی باقی مخلوقات کے ساتھ رب تعالیٰ کی قدرت سے ہی وقوع میں آئی ہیں ، اس بات پر دلالت کرتا ہے انہیں ایک زائد امر میں خصوصیت حاصل ہے، جس میں باقی مخلوقات شریک نہیں اور وہ ان کا دست قدرت سے پیدا ہونا ہے۔ ید کے اثبات کی عرفی دلیل: دونوں آیتوں میں ’’یدین‘‘ تثنیہ کے صیغہ یعنی دو ہاتھوں کا ذکر ہے۔ جن کا عرف میں صرف حقیقی ہاتھ کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے اور انہیں قدرت یا نعمت کے معنی میں کبھی استعمال نہیں کیا جاتا کیوں کہ یوں کہنا کسی طرح بھی روا نہیں کہ ’’رب تعالیٰ نے دو قدرتوں یا دو نعمتوں سے پیدا کیا۔‘‘ اس پر مستزاد یہ کہ ’’یدین‘‘ کا نعمت یا قدرت وغیرہ پر اطلاق بھی تو صرف اس کے حق میں جائز ہے جس کے دو حقیقی ہاتھ ہوں ، یہی وجہ ہے کہ ’’ریح‘‘ (ہوا) اور ’’ماء‘‘ (پانی) کے ہاتھ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا (کہ ہوا اور پانی کے لیے ہاتھ کو بطور صفت مجاز کے نعمت اور قدرت کے معنی میں استعمال کر کے ہوا کا ہاتھ یا پانی کا ہاتھ، کہنا اس لیے درست نہیں کہ ان میں سے کسی کا حقیقی ہاتھ نہیں ۔ فافھم) معطلہ کے بے تکے استدلال کا رد: معطلہ نے (ید کے حقیقی معنی سے انکار کرتے ہوئے) اپنی دلیل میں یہ کہا کہ ’’ید بعض آیات
[1] صحیح: اخرجہ البیھقی فی الاسماء الصفات، ص: ۴۰۳۔