کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 110
اس (اسلوب) سے رب تعالیٰ نے اس بات پر دلالت فرمائی کہ ’’وَجْہُ‘‘ ذات کی صفت ہے۔ طائف کے قصہ سے استدلال: طائف کے قصہ میں وارد حدیث میں ’’وَجْہُ‘‘ کے ذکر کی ذات یا اس کے علاوہ کے ساتھ تاویل کیونکر ممکن ہے؟ چناں چہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اہل طائف کی بے رخی، جفاکاری اور ظلم و ستم سے رنجور اور مغموم ہو کر) ارشاد فرمایا: ’’اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَت لَہُ الظُّلُمَاتُ ‘‘ ’’میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ میں آتا ہوں جس سے اندھیرے (اور تاریکیاں ) چھٹ جاتے ہیں ۔‘‘[1] مسلم شریف کی ایک صحیح حدیث سے استدلال: حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ((حِجَابُہَ النُّوْرُ اَوِالنَّارُ لَوْ کَشَفَۃُ لَاَحْرَقَتْ سُبْحَاتُ وَجْھِہِ مَا انْتَھَی اِلَیْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہِ۔)) ’’رب تعالیٰ کا حجاب نور یا آگ ہے اگر رب تعالیٰ اس حجاب کو کھول دے تو اس کے چہرے کے انوارات و تجلیات حدِ نگاہ تک اس کی مخلوق کو جلا (کر راکھ کر) دیں ۔‘‘[2] _________________________________________________ اصل متن :… وقولہ: ﴿مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ (ص: ۷۵) و قولہ: ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ’’اللہ نے فرمایا کہ (اے ابلیس) جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔‘‘ اور فرمایا:’’اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے (یعنی اللہ بخیل ہے) انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو (اس کا ہاتھ بندھا ہوا نہیں ) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘
[1] ضعیف: ذکرہ ابن اسحاق بدون سند فی قصۃ للطائف۔ [2] مسلم: کتاب الایمان باب فی قولہ علیہ السلام ان اللّٰه لا ینام حدیث رقم: ۲۹۳۔