کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 109
شرح:…
رب تعالیٰ کے لیے صفت ’’وَجْہٌ‘‘ ثابت ہے:
یہ دونوں آیات رب تعالیٰ کے لیے چہرے کی صفت کے اثبات کو متضمن ہیں اور اس باب میں کتاب و سنت کی نصوص شمار سے باہر ہیں جو سب کی سب معطلہ کی اس (باطل) تفسیر کی نفی کرتی ہیں کہ کہ ’’وجہٌ‘‘ سے مراد جہت یا ذات یا ثواب ہے۔
وجہٌ کی بابت اہل حق کا مذہب:
اس باب میں اہل حق کا مسلک یہ ہے کہ ’’وجہٌ‘‘ ذات کے سوا ایک صفت ہے اور ’’وجہ‘‘ کا اثبات رب تعالیٰ کے اعضاء سے مرکب ہونے کو متضمن نہیں جیسا کہ فرقۂ ’’مجسِّمہ‘‘ کا قول ہے بلکہ یہ رب تعالیٰ کی ایک صفت ہے جو اس کے شایان شان ہے۔ پس نہ تو خود اللہ کا چہرہ کسی چہرے کے مشابہ ہے اور نہ کوئی چہرہ اللہ کے چہرے کے مشابہ ہے۔
معطلہ کی باطل تاویل کی دلیل اور اس کا تفصیلی ردّ:
فرقہ معطلہ نے ان دونوں آیات سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ ’’وجہ‘‘ سے مراد ذات الٰہی ہو کیوں کہ صرف ’’وجہ‘‘ کو بقا اور عدم ہلاک کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔
ان کے استدلال میں ہم یہ جواب پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’وجہ‘‘ (کا کوئی حقیقی معنی اور اس) کی کوئی حقیقت نہ ہوتی تو اس لفظ کو ’’ذات‘‘ کے مجازی معنی میں استعمال کرنا ہی درست نہ ہوتا کیوں کہ کسی معنی میں موضوع لفظ کو دوسری (غیر موضوع) معنی ہیں اس وقت ہی استعمال کرنا درست ہوتا ہے جب موصوف کے لیے اس کا اصلی معنی ثابت ہو تاکہ ذہن اس لفظ کے ملزوم سے لازم کی طرف منتقل ہو سکے۔
مزید یہ کہ ہم ان کے پیش کردہ مجازی معنی کو ایک اور طریق (استدلال) سے بھی دور کر سکتے ہیں ، چناں چہ (ان کے جواب میں دوسرا جواب دیتے ہوئے) یہ کہا جائے گا کہ رب تعالیٰ نے بقاء کو ’’وجہ‘‘ کی طرف منسوب کیا ہے اس سے خود ذات کا باقی رہنا بھی لازم آتا ہے لہٰذا ہم اس کو یہ نہ کہیں گے کہ بولا تو ’’وجہ‘‘ گیا ہے مگر مراد ذات لی گئی ہے۔
امام بیہقی کی دلیل:
امام بیہقی رحمہ اللہ خطابی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’جب رب تعالیٰ نے ’’وجہ‘‘ کو اپنی ذات کی طرف مضاف کیا (اور ’’وَجْہُ رَبِّکَ‘‘ فرمایا) اور (ذُو الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِ کی ) صفت کو وجہ کی طرف منسوب کیا اور ﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِ﴾فرمایا تو