کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 108
اور اس کے بعد سورۂ فجر کی ان آیات کو ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کَلَّا ٓاِِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّاo وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا﴾ (الفجر: ۲۱ ۔ ۲۲) ’’تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کر لپیٹ دی جائے گی اور تمھارا پروردگار (جلوہ فرما ہوگا) اور فرشتے قطار باندھ کر موجود ہوں گے۔‘‘ اس آیت میں بھی اتیان رب اتیان عذاب پر حمل کرنا ممکن نہیں ۔ کیوں کہ مراد یہ کہ رب تعالیٰ روز قیامت بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے آئیں گے اور فرشتے رب تعالیٰ کی تعظیم و اجلال کے لیے صف بستہ ہو کر کھڑے ہوں گے۔رب تعالیٰ کی تحئیت کے وقت کیا ہوگا؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآئُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًا﴾ (الفرقان: ۲۵) ’’اور جب آسمان ابر کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے نازل کیے جائیں گے۔‘‘ یہ آخری آیت اس بات کو بتلاتی ہے کہ رب تعالیٰ کی بحیثیت کے وقت آسمان ابر کے ساتھ پھٹ جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ رب تعالیٰ (روز قیامت) آئیں گے، تشریف لائیں گے، نزول اجلال فرمائیں گے، مخلوق کے قریب ہوں گے لیکن عرش کے اوپر اور مخلوق سے جدا ہوں گے۔ رب تعالیٰ کے یہ سب افعال اپنی حقیقت پر ہیں اور ان کو مجاز پر معمول کرنا دراصل رب تعالیٰ کو اپنے فعل سے معطل کرنا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ رب تعالیٰ کا اتیان و تحئیت مخلوقات کے اتیان و بجیئت کے جنس میں سے ہے یہ ایسی تشبیہ کی طرف مائل ہونا ہے جو انکار اور تعطیل (کے اعتقاد) تک پہنچاتی ہے۔ _________________________________________________ وقولہ: ﴿وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِِکْرَامِ﴾ (الرحمن: ۲۷) وقولہ: ﴿کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ﴾ (القصص: ۸۸) ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور تیرے پروردگار ہی کی ذات (با برکات) جو صاحب جلالت و عظمت ہے، باقی رہے گی۔‘‘ اور فرمایا:’’اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر شی فنا ہونے والی ہے۔‘‘