کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 107
یہ دونوں صفات اپنی حقیقت پر ہیں اور اس تاویل سے دور ہیں جو در حقیقت الحاد اور تعطیل ہے۔ مناسب ہے کہ اس مقام پر دورِ حاضر کے تحجہم اور تعطیل کے علمبردار جناب زاہد الکوثری کے خیالات کو بھی جان لیا جائے جو انہوں نے علامہ بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاسماء والصفات‘‘ کے حاشیہ میں لکھے ہیں ، ان کی عبارت اور اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’زمخشری نے (اس مقام پر جو (کچھ) کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رب تعالیٰ ان بادلوں میں عذاب کو لائیں گے جن سے (لوگوں کو) رحمت (کی بارش برسنے) کا انتظار ہوگا۔ پس عذاب کا ایسی جگہ سے آنا جہاں سے رحمت کی امید کی جاتی ہے۔ زیادہ ہولناک اور وحشت ناک ہوگا، اور امام الحرمین کہتے ہیں کہ یہ عبارت ’’با‘‘ کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ گزر گیا (یعنی ’’ان یأتیہم اللّٰہ بعذَابٍ‘‘ کے معنی میں ہے) اور امام رازی فرماتے ہیں کہ: ’’ان کے پاس اللہ کا امر آئے گا۔‘‘ (علامہ زاہد الکوثری کا کلام ختم ہوا) آپ نے دیکھ لیا کہ انہوں نے اپنے تعطیل کے قائل اسلاف سے اس آیت کی تاویل و تخریج میں ان کی مضطرب عبارات کو نقل کیا ہے، حالانکہ اس باب میں یہ آیات صریح ہیں جو کسی قسم کی تاویل کو قبول نہیں کرتیں ۔ چناں چہ ان میں سے پہلی (سورۂ بقرہ کی) آیت کفر و عناد اور شیطان کی اتباع پر ڈٹے رہنے والوں کو اس بات کی دھمکی دے رہی ہے کہ انہیں رب کی بات کا انتظار ہے؟ کیا اس بات کا کہ رب تعالیٰ بادلوں کے سائبانوں میں آ اترے اور ان کے درمیان (ان کے اختلافات کا) فیصلہ کر دے، اور ایسا قیامت کے دن ہوگا۔ اسی لیے اس کے معاً بعد فرمایا: ’’وقضی الامر‘‘ (اور کام تمام کر دیا جائے)۔ جب کہ اس کے بعد سورۂ انعام کی یہ آیت، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ﴾ (الانعام: ۱۵۸) ’’یہ اس کے سوا اور اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں ۔‘‘ اس (معنی میں اس) سے بھی زیادہ واضح اور صریح ہے کیوں کہ اس آیت میں ’’اتیان‘‘ کی تاویل ’’اتیانِ امر‘‘ یا ’’اتیانِ عذاب‘‘ سے نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ اس آیت میں رب تعالیٰ نے فرشتوں کے اتیان، اپنے اتیان اور اپنی بعض نشانیوں کے اتیان کو دہرایا ہے (کہ تینوں باتوں کا اتیان جدا جدا ہے۔ لہٰذا اتیانِ رب کی تاویل اتیانِ امر یا عذاب سے تب ہو جب خود اتیانِ امر یا عذاب کا ذکر نہ ہو۔ فافہم