کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 106
شدید غم اور سخت غصہ اور ناراضی۔ جب کہ اس آیت میں یہی (دوسرا) معنی مراد ہے۔ ’’انتقام‘‘ یہ (بابِ افتعال سے ہے جو) ’’النقمۃ‘‘ سے ماخوذ ہے اور نقمہ سخت ناپسند کرنے اور ناراض ہونے کو کہتے ہیں ، پس انتقام کا معنی ہوا ’’سزا دے کر بدلہ لینا۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ﴾ (التوبۃ: ۴۶) ’’لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا (اور یوں نکل جانا) پسند نہ کیا تو ان کو ہلنے جلنے ہی نہ دیا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: ۳) ’’اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔‘‘ _________________________________________________ اصل متن :… وقولہ: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہ ُفِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ﴾ (البقرۃ: ۲۱۰) وقولہ: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ﴾ (الانعام: ۱۵۸) وقولہ: ﴿کَلَّا ٓاِِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّاo وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا﴾ (الفجر: ۲۱ ۔ ۲۲) وقولہ: ﴿وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَآئُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰٓئِکَۃُ تَنْزِیْلًا﴾ (الفرقان: ۲۵) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ اللہ (کا عذاب) بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہوا اور فرشتے بھی (اتر آئیں ) اور کام تمام کر دیا جائے۔‘‘ ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ، یا تیرا رب آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے۔‘‘ ’’ہر گز نہیں ، جب زمین کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دی جائے گی۔ اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے ۔ ‘‘ ’’اورجس دن آسمان بادل کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے، لگاتار اتارا جانا۔‘‘ _________________________________________________ شرح:… رب تعالیٰ کی صفتِ اتیان و تحئیت کا تفصیلی بیان: یہ (آیت اور اس کے ما بعد مذکورہ سورۂ انعام، سورۂ فجر اور سورۃ الفرقان کی) آیات رب تعالیٰ کی دو صفات ’’اتیان‘‘ اور ’’تحئیت‘‘ کے ذکر کو متضمن ہیں ۔ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ