کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 105
حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور علماء کی ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ قاتل کی کوئی توبہ نہیں ، اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ: ’’(احکام یا خاص حکمِ قتل کی بابت) آسمان سے اترنے والی یہ آخری آیت ہے جس کی کوئی آیت ناسخ نہیں ۔‘‘ [1]
توبہ قاتل کی بابت صحیح تر مذہب:
صحیح یہ ہے کہ ایک قاتل تین حقداروں کا جوابدہ ہوتا ہے، اللہ کا ، مقتول کا، ورثاء کا اور خود مقتول کا (کہ ان تینوں کا حق قاتل کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے۔ اب اللہ کا حق تو توبہ کرنے سے ساقط ہو جاتا ہے، جب کہ ورثا اگر دنیا میں (قصاص لے کر یا دیت لینے کے ذریعے) بدلہ لے لیں یا قاتل کو معاف کر دیں تو ان کا حق بھی (قاتل کے ذمہ سے) ساقط ہو جاتا ہے۔
رہ گیا مقتول کا حق تو وہ (دنیا میں ہر گز) ساقط نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ روزِ قیامت جب وہ اپنے قاتل سے ملے گا تو اس کے سر کو پکڑ کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر فریاد کرے گا، اے پروردگار اس سے پوچھئے! کہ اس نے مجھے کس بنا پر قتل کیا تھا؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ﴾ (محمد: ۲۸)
’’یہ اس لیے کہ جس چیز سے اللہ نا خوش ہے یہ اس کے پیچھے چلے اور اس کی خوش نودی کو اچھا نہ سمجھے۔‘‘
_________________________________________________
اصل متن :… وقولہ: ﴿فَلَمَّا آسَفُوْنَا انتَقَمْنَا مِنْہُمْ﴾ (الزخرف: ۵۵) وقولہ: ﴿وَلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ﴾ (التوبۃ: ۴۶) وقولہ: ﴿کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: ۳)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’جب انہوں نے ہمیں خفا کیا تو ہم نے ان سے انتقام لے کر چھوڑا۔‘‘
اور فرمایا:’’اور لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا نا پسند کیا تو انہیں روک دیا ۔‘‘
اور فرمایا:’’اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔ ‘‘
_________________________________________________
شرح:…
’’الاسف‘‘ اور ’’الانتقام‘‘ کی لغوی تحقیق اور تشریح:
لفظ (’’اٰسفونا‘‘ یہ) الاسف (سے بابِ افعال کا امر کا صیغہ ہے اور اس) کا معنی ہے
[1] بخاری، کتاب التفسیر باب: ’’ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جہنم‘‘ حدیث رقم: ۴۵۹۰۔