کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 104
٭ ’’متعمداً‘‘ سے مراد ہے قصد و ارادہ سے مارنا، جس کی صورت یہ ہے کہ آدمی ایک ایسے شخص کے قتل کا ارادہ کرے جس کی بابت وہ جانتا ہے کہ (وہ بے گناہ ہے اور) اس کا خون معصوم ہے اور اس پر ایسے آلہ قتل سے حملہ کرتا ہے جس سے اس کی موت واقع ہو جانے کا گمان غالب ہو۔ چناں چہ ’’متعمداً‘‘ کی قید ’’قتلِ خطا‘‘ سے احتراز کیا (کہ مذکورہ جزاء غلطی سے کسی کی جان لینے والے کے لیے نہیں )۔ خالداً (یعنی جہنم میں ہمیشہ رہنے) اور لعنت کرنے کی لغوی تحقیق کا بیان: ’’خالداً فیہا‘‘ سے مراد ہے ہمیشہ اس میں رہنا۔ جب کہ بعض نے ’’خلود‘‘ سے مراد طویل قیام کو لیا ہے (جس میں ابدیت کا معنی نہیں مگر یہ تاویل مردود ہے)۔ کیا قاتلِ عمد کی توبہ ہے؟ اس آیت سے علماء کو یہ اشکال پیش آیا ہے کہ یہ آیت بتلاتی ہے کہ قاتلِ عمد کی کوئی توبہ نہیں وہ ہمیشہ جہنم میں (جلتا) رہے گا مگر یہ بات اس آیت کے معارض ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء: ۴۸ ، ۱۱۶) ’’اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہے گا بخش دے گا۔‘‘ علماء نے اس اشکال کے متعدد جوابات دیے ہیں جن میں سے چند کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے: ۱۔ (ہمیشہ جہنم میں جلتے رہنے کی) یہ مذکورہ سزا اس شخص کے لیے ہے جو کسی مسلمان کے (ناحق) قتل کو جائز اور حلال سمجھتے ہوئے اسے عمداً قتل کرے (کہ ایک مسلمان کا خون حرام ہے اور جو کسی حرام کو حلال جانے وہ کافر ہوتا ہے اور کفر ’’خلود فی النار‘‘ کا واضح سبب ہے)۔ ۲۔ (دوسرا جواب یہ ہے کہ) اگر قاتلِ عمد کو سزا دی جائے تو واقعی وہ ایسی ہی سزا کا مستوجب و مستحق ہے (کہ اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے) مگر ساتھ ہی اس بات کا امکان بھی ہے اسے یہ سزا نہ دی جائے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لے یا اتنی نیکیاں کر لے جو اس کی برائیوں پر غالب آ جائیں ۔ ۳۔ یہ آیت زجر اور تغلیظ پر محمول ہے۔ ۴۔ یا پھر ’’خلود‘‘ سے مراد ’’مکثِ طویل‘‘ (لمبی مدت تک جہنم میں رہنا) ہے۔