کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 103
اشاعرہ اور معتزلہ کی بے بسی:
ان صفات کے انکار پر اشاعرہ اور معتزلہ کا دامن دلائل سے خالی ہے البتہ ان کا یہ گمانِ (فاسد) ہے کہ اگر رب تعالیٰ کو ان صفات سے متصف مانیں تو اس کی ذات میں وہ معانی لازم آتے ہیں جو مخلوق کے ان صفات سے متصف ہونے کی بنا پر ان میں پائے جاتے ہیں ۔
مگر رب تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کی بابت یہ گمان کرنے سے انہیں ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا اور انہیں نفی و تعطیل (کے موجبِ عذاب و بلا عقیدہ) کی دلدل میں دے مارا۔ اشاعرہ ان سب صفات کی توحید ارادہ سے کرتے ہیں ۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ نے جان لیا۔ چناں چہ ان کے نزدیک رضا سے مراد ثواب دینے کا ارادہ ہے اور غضب اور بیزاری وغیرہ سے مراد عتاب و عقاب کا ارادہ ہے۔ جب کہ معتزلہ ان سے خود ثواب و عقاب کو مراد لیتے ہیں (ناکہ ان کے ارادہ کو)۔
اللہ کی رضا سب سے بڑی بات ہے:
سورۂ بینہ کی اس آیت میں رب تعالیٰ نے اپنے اور اپنے اولیاء کے درمیان محبت و رضا کے تبادلے کو بیان فرمایا ہے۔ چناں چہ رب تعالیٰ کا بندوں سے راضی ہونا انہیں اللہ سے ملنے والی ہر نعمت سے بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ﴾ (التوبۃ: ۷۲) ’’اور اللہ کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے۔‘‘
بندوں کا رب تعالیٰ سے راضی ہونا ہر ایک کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے ہے:
بندوں کا رب تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہر ایک مقام و مرتبہ سے ہے، وہ جو بھی ہو، اور یہ اس کا اس مقام و مرتبہ سے خوش ہونا ہے، حتیٰ کہ ہر ایک یہ سمجھے گا جو مجھے ملا ہے اس سے بڑھ کر کسی کو نہیں ملا اور ایسا جنت میں ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ﴾ (النساء: ۹۳)
’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور وہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا۔‘‘
چند معنوی فوائد:
٭ ’’مومن‘‘ کی قید سے کافر کے قتل سے احتراز کیا (کہ مذکورہ جزا و سزا کافر کے قاتل کے حق میں نہیں )۔