کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 100
کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحمت اور نرمی کا سلوک کیا کریں ۔‘‘ _________________________________________________ اصل متن :… وقولہ: ﴿رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا﴾ (غافر: ۷) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور تیرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘ _________________________________________________ شرح:… حاملینِ عرش کی حمد و دعا: اس آیت میں رب تعالیٰ نے حاملین عرش اور اس کے گرد موجود مخلوق کی حکایت بیان کی ہے کہ وہ مومنوں کے حق میں دعا کرتے ہوئے رب ذوالجلال کی ربوبیت اور علم و رحمت کی وسعت کو وسیلہ بنا کر دعا کرتے ہیں ، اور یہ ان عمدہ ترین وسیلوں میں سے ہے جن کے ساتھ دعا کے قبول ہونے کی امید کی جاتی ہے۔ رحمۃً و علماً کی نحوی تحقیق: یہ دونوں لفظ تمیز ہونے کی بنا پر منصوب ہیں اور یہ فاعل سے بدل کر آئے ہیں (کیوں کہ تمیز کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو نسبت سے ابہام کو دور کرتی ہے اور نسبت جملہ میں پائی جاتی ہے۔ اب اگر جملہ معروف ہو تو نسبت فاعل کی ہوگی اور اگر مجہول ہو تو نسبت مفعول کی ہوگی۔ چوں کہ یہاں نسبت معروف کی ہے اس لیے یہ تمیز فاعل سے بدل کر آئی ہے[1]) اور (حاشیہ، قوسین اور متن کی مذکورہ تشریح کے مطابق) اس کی تقدیری عبارت یوں ہوگی: (وَسِعَتْ رَحْمَتُکَ وَعِلْمُکَ کُلَّ شَیْئٍ) ’’تیری رحمت اور تیرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘ دنیا میں اللہ کی رحمت سب کے لیے جب کہ آخرت میں صرف متقیوں کے لیے: رب تعالیٰ کی رحمت دنیا میں مومن اور کافر، نیک و بد ہر ایک کو عام ہے لیکن روزِ محشر رب تعالیٰ کی رحمت صرف متقیوں کے ساتھ خاص ہوگی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ﴾ (الاعراف: ۱۵۶) ’’(اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے) میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰۃ دیتے (اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے) ہیں ۔‘‘
[1] ہذا ما استفدت من التسہیل لسامی فی حل شرح الجامی، ج: ۱، ص: ۳۶۸، اور یہاں تمیز یعنی علم اور رحمت ذات نہیں بلکہ عرض ہے اور یہ عرض غیر اضافی ہے کہ رحمت اور علم ایک صفت ہوتی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور ان کے مفہوم میں غیر کا لحاظ نہیں ہوتا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں حوالہ بالا۔