کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 99
’’عمل کرو کیونکہ جس شخص کو جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے وہ کام آسان کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ طریقہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، صحابہ کرام کا اور علمائے اہل سنت والجماعت کا جو عزم و حزم کے ساتھ اس طرح کام کرتے تھے کہ گویا عمل کے سوا کوئی چیز ان کو نجات دلانے والی اور سعادت سے ہم کنار کرنے والی نہیں ہے پھر وہ اپنے رب پر توکل بھی کرتے تھے۔ ۱۵۔ تقدیر کی بابت ایک چور اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مکالمہ: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک چور کو پیش کیا گیا تو آپ نے پوچھا تم نے چوری کیوں کی؟ اس نے جواب دیا تقدیر الٰہی نے مجھے چور کرنے پر آمادہ کیا۔ آپ نے فرمایا میں بھی تقدیر الٰہی کے مطابق تمہارا ہاتھ کاٹتا ہوں ۔ چنانچہ آپ کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹا گیا۔ کوئی انسان بھی کسی نقصان کی صورت میں جو اسے یا اس کے اہل و عیال یا اُس کے مال کو پہنچے تقدیر کا عذر قبول نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص کسی پر زیادتی کرتا ہے مثلاً اس کو مارتا ہے یا اس کا مال چھین لیتا ہے، اس کی بے عزتی کرتا ہے اور پوچھنے پر کہتا ہے کہ تقدیر نے مجھے یہ کام کرنے پر مجبور کیا تھا تو اس کا یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ پھر اللہ کی نافرمانی اور محرمات کا ارتکاب کرنے کے معاملہ میں اس کا یہ عذر کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟ قصور قضاء و قدر کا نہیں بلکہ اس شخص کا اپنا ہے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تقدیر کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس کی وجہ سے عمل ترک کرنا جائز ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِعْمَلُوْا فُکُلٌ مُیَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَہٗ۔)) ’’عمل کرو کیونکہ جس شخص کو جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے اُس کے لیے اس کام کو آسان کر دیا گیا ہے۔‘‘ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ ہمیں جب قضاء و قدر کی حقیقت معلوم ہو گئی تو ہم عمل کا زیادہ اہتمام کرنے لگے۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! یہ دوائیں جن سے ہم علاج کرتے ہیں ، یہ منتر جن کو ہم استعمال کرتے ہیں اور یہ احتیاطی تدابیر