کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 98
’’توکل اس صورت میں ہوگا جب کہ اسباب کو اختیار کیا جائے۔ اگر توکل کا دعویٰ کر کے اسباب کو ترک کر دیا جائے تو یہ شریعت سے جہالت یا عقل کی خرابی کا ثبوت ہوتا۔ تو کل کا محل دل ہے اور اسباب کا محل اعضاء و جوارح ہیں اور انسان اسباب کو اختیار کرنے پر مامور ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ﴾ (النساء: ۷۱) ’’اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ﴾ (الانفال: ۶۰) ’’اور جہاں تک تمہارے بس میں ہو ان کے مقابلے کے لیے طاقت فراہم کرو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہِ﴾ (الملک: ۱۵) ’’زمین کے بلند راستوں پر چلو اور اللہ کا رزق بڑھاؤ۔‘‘ اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ﴿فَاَسْرِ بِعِبٰدِیْ لَیْلًا اِِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَo﴾ (الدخان: ۲۳) ’’راتوں رات میرے بندں کو لے کر نکل جاؤ تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔‘‘ واضح ہو اکہ رسولوں کا دین یہ تھا کہ وہ قضاء و قدر پر ایمان کے ساتھ عمل بھی کرتے تھے اور حکم بھی دیتے تھے۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین تقدیر کے ذریعہ تقدیر سے لڑتے تھے اور تقدیر کے مقابلہ میں امر کو فیصلہ کن بناتے تھے اور کہتے تھے کہ تقدیر عمل سے نہیں روکتی اور نہ اُس پر بھروسا کر کے بیٹھے رہنا صحیح ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِعْمَلُوْا فُکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَہٗ۔)) [1]
[1] بخاری، باب ﴿فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی﴾، ح: ۴۹۴۹۔