کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 96
ابوعبیدہ بن جراح نے کہا: ’’اے عمر! کیا آپ تقدیر الٰہی سے فرار اختیار کرتے ہیں ؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ہاں ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی ہی کی طرف فرار اختیار کرتے ہیں ۔‘‘ قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ اپنے بچاؤ کی صورت اختیار کی جائے جس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی تقدیر پر تکیہ کیے نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ﴾ (النساء: ۷۱) ’’اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ﴾ (الانفال: ۶۰) ’’اور جہاں تک ہو سکے اُن کے مقابلے کے لیے طاقت فراہم کرو۔‘‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب کو نتائج سے مربوط کر رکھا ہے۔ لہٰذا قصور قضاء و قدر کا نہیں بلکہ لوگوں کا اپنا قصور ہے۔ ﴿مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ (النساء: ۷۹) ’’تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو تکلیف پہنچتی ہے وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے: وعند مراد اللّٰہ تفنٰی کمیت وعند مراد النفس تسدی وتلحم وعند خلاف الامر تحتج بالقضاء ظہیرًا علٰی الرحمٰن للجبر تزعم