کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 95
﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ﴾ (النحل: ۳۶) ’’اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کچھ لوگوں پر گمراہی مسلط ہو کے رہی۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِo﴾ (الشورٰی: ۷) ’’ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ دوزخ میں ۔‘‘ جو لوگ تقدیر کو عذر بنا لیتے ہیں اُنہیں ’’جبریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض کا قول ہے، (لَا یُغْنِیْ حِذْرٌ عَنْ قَدْرٍ) ’’تقدیر کے آگے احتیاط کام نہیں دیتی۔‘‘ لیکن یہ بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، کیونکہ بعض اوقات احتیاط سے تقدیر ٹل جاتی ہے۔ قرآن نے بتلایا ہے کہ کن چیزوں کے ذریعہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور کن چیزوں کے ذریعے سے نقصان کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ﴾ (النساء: ۷۱) ’’اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان کرو۔‘‘ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((نَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدْرِ اللّٰہِ۔)) ’’ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی ہی کی طرف بھاگتے ہیں ۔‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس موقع پر ارشاد فرمائی جب کہ طاعون کی وجہ سے آپ کے اور صحابہ کے شام میں داخل نہ ہونے کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، چنانچہ آپ نے اعلان فرمایا: ’’میں صبح واپس روانہ ہو جاؤں گا۔‘‘ لوگوں نے بھی واپسی کی تیاری کر لی لیکن