کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 94
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بات یہ منسوب فرمائی ہے کہ وہ تقدیر کو بہانا بنا کر پیش کرتے ہیں : ﴿لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ نَّحْنُ وَ لَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُo﴾ (النحل: ۳۵) ’’اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے، نہ ہم اور نہ ہمارے آباء و اجداد اور نہ ہم اس کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ یہی روش ان سے پہلے کے لوگوں نے اختیار کی تھی تو رسول پر واضح طور سے پیغام پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘ اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ اللہ وحدہ کی عبادت کرنے اور اس کے ما سوا کسی کی عبادت نہ کرنے پر لوگوں کو مجبور کر دے کیونکہ یہ سب باتیں انسان کے اپنے عمل پر موقوف ہیں اور اسے پورا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ﴿وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (الکہف: ۲۹) ’’کہو یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے۔ اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا: ﴿فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ وَ لَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًا وَّ لَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًاo﴾ (فاطر: ۳۹) ’’جو کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا اور کافروں کا کفر ان کے رب کے نزدیک ناراضگی میں اضافہ ہی کا باعث ہے اور کافروں کا کفر خسارے میں اضافہ ہی کا موجب ہے۔‘‘ رسولوں کا کام تو صرف ہدایت و دعوت کو انسانوں تک پہنچا دینا ہے: