کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 93
کے اذن سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ’’ام الکتاب‘‘ ہے، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ دعا منقول ہے: ’’اے اللہ! اگر تو نے ام الکتاب میں مجھے بدبخت لکھا ہے تو اسے مٹا دے اور نیک بخت لکھ کہ جو تو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور تیرے پاس ام الکتاب ہے۔‘‘ ۱۳۔ علم الٰہی میں تغیر نہیں ہوتا: بعض لوگ سستی کرتے ہیں اور قضاء و قدر پر بھروسا کر کے دعا سے بے اعتنائی برتتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ کام مقدر میں ہے تو ضرور ہوگا چاہے میں اس کے لیے دعا کروں یا نہ کروں ، یہ سراسر غلط ہے کیونکہ دعا عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس لیے مشروع کیا ہے کہ دعا کرنے والے کے لیے یہ باعثِ ثواب ہو اور اُسے شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ دعا اللہ کی محبوب چیز ہے، اُس کے نزدیک دعا سے بڑھ کر شرف رکھنے والی چیز کوئی نہیں ۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محبوب و مطلوب چیزوں کا حصول اللہ تعالیٰ نے دعا پر موقوف کر رکھا ہے اور ان کے سلسلہ میں کامیابی دعا ہی کے ذریعے سے ہو سکتی ہے اس کے بغیر نہیں ۔ جب بندہ اپنے رب سے ان چیزوں کو مانگتا ہے تو اسے حاصل ہوتی ہے اور اگر نہیں مانگتا تو اسے حاصل نہیں ہوتیں ۔ یہ سب باتیں قضاء و قدر میں شامل ہیں ۔ البتہ جو باتیں اللہ کے علم میں ہیں ان میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تغیر، کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فلاں بات اس طرح ہوگی اور فلاں وقت ہو گی۔ اس کے اس علم میں کسی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بخلاف نوشتہ کے جو فرشتہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے یا جو تحریر لوحِ محفوظ میں ہے اس میں سنت الٰہی کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے جو تقدیر کو دفع کرنے کے سلسلہ میں اللہ نے جاری کر رکھی ہے۔ اس کی مثال عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ہے کہ: ((نَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدْرِ اللّٰہِ۔)) ’’ہم تقدیر الٰہی سے تقدیر الٰہی ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔‘‘