کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 92
ہے۔ یہ سب چیزیں حتیٰ کہ نادانی و دانشمندی بھی قضاء و قدر میں شامل ہیں ۔ دعائے قنوت میں ہے: ((اَللّٰہُمَّ اہْدِنَا فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنَا فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنَا فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنَا وَاصْرِفْ عَنَّا شَرَّ مَا قَضَیْتَ۔)) ’’اے اللہ! ہمیں ہدایت سے نواز اور ہدایت یافتہ لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما۔ ہمیں عافیت عطا کر اور جن کو تو نے عافیت عطا کی ان کے زمرے میں شامل فرما۔ ہمیں اپنا دوست بنا اور جن لوگوں کو تو نے دوست بنایا ان کے زمرے میں شامل فرما اور تو نے جو کچھ ہمیں عطا فرمایا ہے اس میں برکت دے اور اپنے فیصلہ کے شر سے ہمیں بچا اور محفوظ رکھ۔‘‘ اگر دعا و قضاء و قدر کے شر کو نہ ٹالتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کے لیے مشروع نہ فرماتے، اس کی تائید سیّدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((لَا یَرُدُّ الْقَدْرُ اِلَّا الدُّعَائُ وَ لَا یَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ اِلَّا الْبِرُّ وَ اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتَدْفَعُ مَیْتَۃَ السُّوْئِ۔)) [1] ’’تقدیر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کے ذریعے سے ہو سکتا ہے اور صدقہ بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ تقدیر اسباب سے ٹل سکتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے رفع کرنے اور دور کرنے کے لیے مشروع کیا ہے اس لیے اسے لوگوں پر جبر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ فرشتہ کا نوشتہ تقدیر کا لکھنا جب کہ بچہ شکم مادر میں ہوتا ہے اور اس نوشتہ میں بچہ کی عمر، عمل اور اس کے نیک بخت یا بدبخت ہونے کا اندراج اسی قبیل سے ہے کیونکہ اس نوشتہ میں اللہ
[1] ابن ماجہ، الفتن: ۴۰۲۲۔