کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 91
فرمائے گا : ((یَا عِبَادِیْ اِنَّمَا ہِیَ اَعْمَالُکُمْ اُحْصِیْہَا عَلَیْکُمْ ثُمَّ اُوْفِیْکُمْ اِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ وَ مَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَہٗ۔)) [1] ’’اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال میں جن کو میں شمار کرتا ہوں پھر اس کا تمہیں پورا پورا بدلہ دوں گا لہٰذا جو کوئی بھلائی کو پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو کوئی دوسری چیز کو پائے وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔‘‘ لہٰذا جو شخص بھی دوزخ میں داخل ہوگا وہ اپنے عمل کی بنا پر اپنے کو دوزخ کا مستحق سمجھ رہا ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِo فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِo﴾ (الملک: ۱۰۔۱۱) ’’وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں شامل نہ ہوتے۔ اس طرح وہ اپنے جرم کا اعتراف کریں گے تو لعنت ہے اُن دوزخیوں پر۔‘‘ ۱۲۔ تقدیر کو عذر بنا لینا غلط ہے: قضاء و قدر کے معاملے میں اہل سنت کا طریقہ یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، نیز اس بات پر کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ جو چاہے کر گزرتا ہے۔ اس نے جو چاہا ہوا جو نہیں چاہا نہیں ہوا۔ وہ قضاء و قدر پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے عذر نہیں بناتے۔ جو شخص تقدیر کو عذر بنا لے گا اس کا یہ عذر اس کے رب کے نزدیک مردود ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قضاء وقدر پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ ان پر مسلط کر دیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تقدیروں کے لیے اسباب پیدا کر دیے ہیں ۔ دعا، صدقہ، دوا، احتیاط اور عزم و حزم جیسی چیزوں سے تقدیر ٹل سکتی
[1] مسلم: باب تحریم الظلم، ح: ۲۵۷۷۔