کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 90
فَعَلَیْہَا وَ مَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیْظٍ﴾ (الانعام: ۱۰۴) ’’تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی باتیں آ چکی ہیں ۔ اب جو بینائی سے کام لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنا رہے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اور میں تم پر نگراں نہیں ہوں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون سب سے بہتر ہے۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو سننے دیکھنے اور سمجھنے کی قوتیں عطا کیں تاکہ وہ اپنے بھلے برے کو پہچان سکے۔ اُس نے جس طرح انسان کو پیدا کیا اسی طرح شیطان کو بھی پیدا کیا تاکہ اس کے ذریعے سے امتحان لے کہ کون اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اور کون شیطان کا پیرو بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَo وَ مَا کَانَ لَہٗ عَلَیْہِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَۃِ مِمَّنْ ہُوَ مِنْہَا فِیْ شَکٍّ وَ رَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَفِیْظٌo﴾ (سباء: ۲۰۔۲۱) ’’اور واقعی ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان صحیح پایا اور انہوں نے اسی کی پیروی کی بجز مومنوں کے گروہ کے۔ ابلیس کا اُن پر کوئی تسلط نہ تھا مگر ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کوئی آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون اس کی طرف سے شک میں پڑا ہوا ہے اور تمہارا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتلایا ہے کہ ابلیس کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو آزمایا جائے اور اُن کا امتحان لیا جائے کہ ان کا ایمان کہاں تک درست ہے۔ اس امتحان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ایمان لا کر اپنے رب کا اطاعت گزار بنتا اور کون آخرت کے لیے کام کرتا ہے اور کون آخرت کے بارے میں شک و ریب میں مبتلا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب کہ اعمال نامے پیش کیے جائیں گے اپنے بندوں کو آگاہ