کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 89
﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ﴾ (البقرۃ: ۲۵۷) ’’اللہ اہل ایمان کا رفیق ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور کافروں کے رفیق طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں ۔‘‘ غزوہ احد کے موقع پر ایک شخص اصیرم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ صبح مشرکین کی جانب سے لڑ رہا تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں لڑنے لگا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَمِلَ قَلِیْلًا وَ اَجْرٌ کَثِیْرًا)) [1] ’’عمل تھوڑا کیا اور اجر کثیر پایا۔‘‘ ابو سعید کی مرفوع حدیث میں ہے: ’’کوئی شخص مومن گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اور زندگی بھر مومن رہتا ہے لیکن اس کی موت حالت کفر میں ہوتی ہے اور دوسرا شخص کافر گھرانے میں پیدا ہوتا ہے زندگی بھر کافر رہتا ہے لیکن اس کی موت حالتِ ایمان پر ہوتی ہے۔‘‘ یہ اس لیے کہ عمر کے آخری حصہ کا اعتبار ہوتا ہے اور کسی بھی معاملہ میں اصل چیز اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ کفر اور یہ ایمان اُس شخص کا فعل ہے اور یہ کام اُس نے اپنے اختیار سے کیا ہے۔ جس نے کفر کیا اور اس کے کفر کا وبال اسی کے سر ہے اور کافروں کا کفر ان کے رب کی ناراضی ہی میں اضافہ کا باعث ہے اور کافروں کا کفر ان کی تباہی ہی میں اضافہ کا باعث ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿قَدْ جَآئَ کُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِہٖ وَ مَنْ عَمِیَ
[1] بخاری: باب عمل صالح قبل القتال، ح: ۲۸۰۸۔