کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 88
﴿وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًاo فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا﴾ (الکہف: ۸۰۔۸۱) ’’رہا وہ لڑکا تو اُس کے والدین مومن تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ اپنے کفر اور سرکشی سے ان کو تنگ کرے گا اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔‘‘ اسی طرح حدیث میں یہ جو کہا گیا ہے کہ: ’’کوئی شخص دوزخیوں کا سا عمل کرتا رہتا ہے لیکن نوشتہ تقدیر پر غالب آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے اور بالآخر جنت میں داخل ہو جاتا ہے، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کافر کے گھر پیدا ہوتا ہے اور کفر کی ہی حالت میں زندگی گزارتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی عمر کے آخری حصہ کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے رب کے حضور توبہ کرتا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور اسلام قبول کر کے دین پر اچھی طرح عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ واجباتِ دین اور نماز روزہ وغیرہ تمام عبادات کی پابندی کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا خاتمہ اُسی پر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا﴾ (الانعام: ۱۲۲) ’’کیا وہ شخص جو مردہ تھا اور اسے ہم نے زندگی بخشی اور ایک روشنی عطا کی جس کو لے کر وہ لوگوں میں چلتا ہے کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا اور اس سے نکلنے والا نہیں ہے؟‘‘ یہ آیت ایسے کافر کے بارے میں نازل ہوئی جو اسلام قبول کرتا ہے۔ حالتِ کفر میں وہ گویا مردہ تھا اور تاریکیوں میں گم تھا۔ جب اُس نے اسلام قبول کیا تو اسے زندگی کی نعمت عطا ہوئی اور تاریکیوں سے نکل کر وہ روشنی میں آ گیا اور فرمایا: