کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 87
ہے مٹاتا ہے اور جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب ہے جس کا بیان ان شاء اللہ آگے آئے گا، اور حدیث: ’’تم میں سے کوئی شخص اہل جنت کا سا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور اس پر نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور وہ دوزخیوں کا سا عمل کرنے لگتا ہے اور بالآخر دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ میں نوشتہ تقدیر کے غالب آنے سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ کسی شخص کا خاتمہ کس حالت پر ہوگا، اس کا پیشگی علم اللہ کو ہے۔ اس بات کو ہم اس صورت واقعہ سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شخص مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اس کے والدین مومن ہوتے ہیں ، وہ بھی اللہ پر ایمان لے آتا ہے، نماز، روزہ اور دیگر فرائض کی پابندی کرتا ہے، محرمات و منکرات سے بچتا ہے اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ اسی طرح راہِ راست پر گزارتا ہے۔ اس کے بعد وہ الحاد اور عقیدہ کی خرابی میں مبتلا ہو جاتا ہے، قرآن و رسول کا انکار کر کے مرتد ہو جاتا ہے۔ اس طرح اس کی موت برائی پر ہوتی ہے اور وہ اپنے کفر و الحاد کے بہ سبب جس پر اس کا خاتمہ ہوا ہے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ عمر کے آخری حصہ کا اعتبار ہوتا ہے اور کسی معاملہ میں بھی اصلی اہمیت رکھنے والی چیز اس کا خاتمہ ہوا کرتی ہے تقدیر کے لکھے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو اس شخص کی حالت کے بدل جانے کا علم پہلے سے تھا اس لیے اُس نے اُسے ارتداد پر آمادہ کیا اور برے خاتمہ تک پہنچایا، بلکہ وہ خود اپنے عمل اور اپنے اختیار سے اس حالت کو پہنچا۔ ﴿فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ وَ لَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًا وَ لَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًاo﴾ (فاطر: ۳۹) ’’جو کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا اور کافروں کا کفر ان کے رب کے نزدیک ناراضگی میں اضافہ ہی کا باعث ہوتا ہے اور کافروں کا کفر خسارہ میں اضافہ ہی کا موجب ہے۔‘‘ جس لڑکے کو خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: