کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 86
یا بدی کے کاموں کے لیے مجبور کر دیے گئے ہیں بلکہ بندے اپنے لیے عمل کرنے اور نیکی و بدی کے کام کرنے کے لیے آزاد ہیں ۔ یہ اُن کی اپنی کمائی ہے جس کا بدلہ انہیں ملے گا۔ ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَائَ فَعَلَیْہَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِo﴾ (حٰمٓ السجدہ: ۴۶) ’’جو نیک عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کے لیے ہے اور جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ تمہارا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔‘‘ ایک جگہ فرمایا: ﴿وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ فِیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (التوبۃ: ۱۰۵) ’’کہو عمل کرو، اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان تمہارے عمل کو دیکھیں گے اور تم عنقریب اس ہستی کے حضور پیش کیے جاؤ گے جو غیب اور حاضر کی جاننے والی ہے۔ پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔‘‘ قرآن میں یہ بات بکثرت بتائی گئی ہے کہ جزا عمل پر موقوف ہے، اور ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا۔ اگر اس نے اپنے کام کیے تھے تو اچھا بدلہ ملے گا اگر برے کام کیے تھے تو برا بدلہ ملے گا اور کسی کو تاہ کار کے اجر میں اس کے نسبت کی بنا پر اضافہ نہیں کیا جائے گا اور نہ اپنے اعمال کو تقدیر کی طرف منسوب کرنے کی بنا پر کوئی رعایت ملے گی اس کی یہ دلیل اس کے رب کے پاس بالکل بے وزن ہو گی۔ ۱۱۔ کفر و ایمان کا وقوع اشخاص کا اختیاری فعل ہے: رہا وہ نوشتہ جو فرشتہ اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے تو اس میں تبدیلی اور تغیر واقع ہوتا ہے مگر اللہ کے اذن سے اور سنت الٰہی کے تحت جو اس نے قضاء و قدر کو برقرار رکھنے اور دفع کرنے کے لیے جاری کر رکھی ہے کیونکہ اللہ جسے چاہتا