کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 85
’’تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ایک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے پھر اتنے ہی دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دن لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے۔ پھر اللہ اس کے پاس فرشتے کو بھیجتا ہے جس کو چار باتیں لکھنے کا حکم دیتا ہے، اس کا رزق، عمر، عمل، اور بد بخت یا نیک بخت ہونا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے تم میں سے کوئی شخص جنتیوں کا سا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور اس پر نوشتہ تقدیر پر غالب آ جاتا ہے اور وہ درختوں کا سا عمل کرنے لگتا ہے اور بالآخر دوزخ میں عمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص دوزخیوں کا سا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اور اس پر نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کا سا عمل کرنے لگتا ہے اور بالآخر جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ بہت سے جہلاء اور خاص طور پر نو جوان جو تقدیر کی حقیقت سے نا آشنا ہیں اس حدیث کو دلیل بنا کر بحث کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے خیال میں وہ نیکی اور بدی کے کام کرنے کے لیے مجبور ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بعض لوگوں کے لیے سعادت اسی وقت لکھ دی گئی جب کہ وہ شکم مادر میں تھے خواہ ان کے عمل کچھ ہوں ۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کے لیے بد بختی لکھ دی گئی ہے خواہ وہ کیسا ہی عمل کریں ۔ ان کے نزدیک اس نوشتہ تقدیر کا مطلب آدمی کا مجبوراً اور بے اختیار ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیر کا لکھا جانا دو طرح سے ہے۔ ایک لکھا جانا اس بات سے تعبیر ہے کہ اللہ کو اشیاء کا علم ان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی تھا۔ وہ اپنے پیدا کیے ہوئے لوگوں کے احوال کو جانتا ہے جب کہ وہ ماؤں کے شکم میں ہوتے ہیں ۔ اس وقت وہ جان ہرا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ کیا کرنے والے ہیں ، اس میں کسی قسم کی تبدیلی اور تغیر نہیں ہوتا، اسے ازلی نوشتہ کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے جان لینے کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ بندے نیکی