کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 84
اس پر بندہ کو عمل کرنے کے لیے وہ مجبور کر دیتا ہے، اور ارشادِ رسول ’’آدم موسیٰ پر حجت میں غالب آ گئے۔‘‘ کا مطلب بھی یہی سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب صر ف یہ بتلانا ہے کہ اللہ کو لوگوں کے افعال، اُن کی کمائی اور ان کے قصداً و عمداً گناہوں میں مبتلا ہونے کا اسے پیشگی علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ لوگ اپنے اختیار سے یہ سب کچھ کریں گے اور ان کے خلاف حجت ان کے با اعتبار ہونے ہی کی بناء پر قائم کی جائے گی اور اسی بنا پر وہ قابل ملامت قرار دیے جائیں گے۔ حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں حضرت آدم کی دلیل یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم تھا کہ آدم شیطان کے فریب میں آکر اپنی خواہش و رغبت اور اختیار سے درخت کے پھل کھائیں گے پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اس معاملہ میں اللہ کا علم غلط ثابت ہوتا؟‘‘ ۱۰۔ فرشتوں کا لکھا ہوا مشیت الٰہی کے تحت بدلا جاتا ہے: دوسری حدیث جس سے عقیدہ تقدیر میں غلو کرنے والے استدلال کرتے ہیں صحیحین کی ہے، جسے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مجسم سچائی تھے ، نے فرمایا: ((اِنَّ اَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُونُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ اِلَیْہِ الْمَلَکُ فَیُؤْمَرُ بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ فَیُکْتَبُ رِزْقُہٗ وَاَجَلُہٗ وَعَمَلُہٗ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِیدٌ فَوَالَّذِی مُحَمَّدٌ بِیَدِہِ اِنَّ اَحَدَکُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ النَّارِ فَیَدْخُلُہَا وَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ النَّارِ حَتّٰی مَا یَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ اَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیَدْخُلُہَا۔)) [1]
[1] بخاری، باب فی القدر، ح: ۶۵۹۴۔ مسلم: ۴۷۸۱۔