کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 83
ہے کہ آدم علیہ السلام نے توبہ کی تھی اس کے بعد ان کو ملامت کرنے کے کوئی معنی نہیں اور بعض کہتے ہیں اس معاملہ کی نوعیت دنیا و آخرت میں مختلف ہے۔ تیسرے گروہ نے اللہ اور رسول کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کی بے گناہی کے لیے اس حدیث کو بنیاد بنا لیا ہے، چنانچہ اس گروہ کا کوئی آدمی جب گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ تقدیر کا عذر پیش کرنے لگتا ہے، لیکن جب دوسرا آدمی گناہ یا ظلم کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس کے عذر کو تسلیم نہیں کرتا۔ ایسے ہی لوگ ظالم اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آدم حقیقت حال سے بے خبر نہیں کہ وہ تقدیر کا عذر پیش کریں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ابلیس ہی تھا جس نے ان کو گناہ میں مبتلا کیا۔ جس درخت سے انہیں روکا گیا تھا اس کے کھانے کی اسی نے ترغیب دی تھی۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ﴿وَ نَادٰیہُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْہَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ وَ اَقُلْ لَّکُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo﴾ (الاعراف: ۲۲۔۲۳) ’’ان کے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے روکا نہ تھا اور یہ کہا نہ تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ دونوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو ہم ضرور تباہ ہو جائیں گے۔‘‘ آدم نے گناہ سے توبہ کی معافی چاہی۔ اگر تقدیر کو دلیل بنانا مفید ہوتا تو آدم اس کو عذر بنا کر پیش کرتے اور توبہ استغفار نہ کرتے۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بہت سے لوگ قضاء و قدر کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے جو مقدر کر رکھا ہے