کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 82
کرتے ہو جو اللہ نے میرے لیے مقدر کی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح حجت میں آدم موسیٰ پر غالب آ گئے۔‘‘ یہ حدیث مشکل احادیث میں سے ہے اور ابن حجر نے فتح الباری میں اس حدیث کے سلسلہ میں متعدد اشکالات پیش کیے ہیں ۔ سب سے بڑا اشکال یہ ہے کہ یہ حدیث قصہ آدم سے متعلق نص قرآنی ﴿وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَویٰ﴾ ’’آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بھٹک گیا۔‘‘ اور ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا﴾ ’’اے ہمارے رب ہم نے اپنی نفس پر ظلم کیا۔‘‘ کے خلاف پڑتی ہے۔ آدم نے اپنے رب کے سامنے یہ دلیل پیش نہیں کی کہ یہ تقدیر کا لکھا تھا بلکہ اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے رب کے حضور توبہ کی۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس حدیث سے مسلک جبر کی تائید ہوتی ہے جو کتاب و سنت، اجماع صحابہ اور اسلافِ اُمت کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ملاقات روحوں کی تھی جو دنیا میں ہوئی یا یہ ملاقات قیامت کے دن ہو گی جب کہ قبروں سے اُٹھایا جائے گا اور شرعی تکلیف ساقط ہو گی؟ یہ اور اس قسم کے دوسرے اعتراضات فتح الباری (ج:۱۱، ص: ۴۰۶) میں کیے گئے ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’رسالہ الاحتجاج بالقدر‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’عام طور سے لوگوں کا خیال ہے کہ آدمی نے پہلے سے لکھی گئی تقدیر کو اپنے گناہ کے عذر کے طور پر پیش کیا۔ اس خیال کے نتیجہ میں ان کے تین گروہ ہو گئے۔ ایک گروہ اس حدیث کا انکار کرتا ہے کیونکہ یہ بات جیسا کہ معلوم ہے انبیاء کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حدیث کا مفہوم یہ نہیں ہو سکتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ کسی بھی پیغمبر اور اس کے متبعین کی طرف یہ بات ہر گز منسوب نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے تقدیر کو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے حجت بنا کر پیش کیا ہوگا۔ ان کا دامن یقینا اس سے پاک ہے، اور دوسرے گروہ نے بالکل رکیک تاویلات کی ہیں مثلاً یہ کہ آدمی کو غلبہ اس لیے ہوا کہ وہ باپ ہیں اور بیٹے کا یہ مقام نہیں کہ وہ باپ کی ملامت کرے، بعض کا کہنا