کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 80
وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے اور رسول کے ساتھی اور حزب اللہ ہونے کی بنا پر کبھی مغلوب نہیں ہوں گے۔ اس سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی: ﴿اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ﴾ (آل عمران: ۱۶۵) ’’کیا جب تمہیں مصیبت پہنچی، حالانکہ اس سے دگنی مصیبت تم (اُنہیں ) پہنچا چکے ہو تو کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی، کہو یہ تمہارے ہی ہاتھوں آئی ہے۔‘‘ یعنی شکست کا سبب تمہاری اپنی کوتاہی ہے جو تم نے اپنے دفاع کے سلسلہ میں کی، نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے رسول اور اپنے امیر کی نافرمانی کی۔ اس کے بعد صحابہ کرام اسباب کا کافی خیال کرنے لگے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ اللہ تعالیٰ نے نتائج کو اسباب سے مربوط کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول سے جو اللہ پر سب سے زیادہ توکل رکھنے والے ہیں جنگ میں دو زرہیں پہن لی تھیں ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک دیوار کے پاس سے ہوا جو جھک گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تیزی سے گزر گئے۔ دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچانک موت کا اندیشہ تھا ایک مرتبہ ایک جذامی ترکِ وطن کر کے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس بھیج دیا، شہر میں داخل ہونے سے منع فرمایا اور اس سے کہا: ’’لوٹ جاؤ، ہم نے تمہاری بیعت قبول کر لی۔‘‘ نیز فرمایا: ’’مریض کو صحت مندوں کے درمیان نہ لایا جائے۔‘‘ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ﴾ (النساء: ۷۱) ’’اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ﴾ (الانفال: ۶۰)