کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 79
’’طاقت ور مومن کمزور مومن کے مقابلہ میں بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے اور بھلائی دونوں میں ہے۔‘‘ ۸۔ غزوۂ اُحد میں فتح و شکت کے اسباب: انسان کو چاہیے کہ جو چیز نفع بخش ہے اس کی خواہش کرے۔ اللہ سے مدد طلب کرے اور کمزور بن کر نہ بیٹھا رہے۔ اگر مصیبت آ پڑے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ تقدیر الٰہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیونکہ اگر مگر سے شیطان کو کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام بھی دشمن سے تحفظ کے لیے اسباب و وسائل استعمال کرتے تھے، حالانکہ ان کی مدد وحی کے ذریعے سے ہوتی تھی، اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقع پر دو زرہیں پہن لی تھیں اور جنگ احد میں مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا اور عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو ان کے رفقاء کے ساتھ ایک گھاٹی کے دہانہ پر مقرر کیا تھا اور انہیں ہدایت کی تھی کہ اس جگہ جمے رہو، اس کو چھوڑنا نہیں یہاں تک کہ اگر تم دیکھ لو کہ پرندے ہمیں اچک رہے ہیں تب بھی ہماری مدد کے لیے نہ آنا، یا اگر ہمیں مال غنیمت جمع کرتے ہوئے دیکھ لو تو بھی ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ صبح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کا غلبہ رہا، چنانچہ مشرکین کے سات یا نو جھنڈے گرا دیے گئے اور جب وہ شکست کھا چکے تو ان کی سواریوں سے اسلحہ اور سامان گرنے لگا اور مسلمان اس پر قبضہ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھی پکار اُٹھے مالِ غنیمت پر قبضہ کرو۔ ان کے امیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا مگر انہوں نے امیر کی نافرمانی کی اور لوگوں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں شریک ہو گئے۔ اس طرح مشرکین کے لشکر کو اس گھاٹی سے داخل ہونے کا موقع ملا جس کے نتیجہ میں ستر صحابہ شہید ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک زخمی ہوا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو دانت شہید ہو گئے اور مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقتول سمجھ کر ایک گڑھے میں چھوڑ گئے۔ اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اس شکست کے اسباب پر غور کرنے لگے کہ آخر ایسا کیسے ہوا،