کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 78
بتلاتا ہے جسے میٹر کہا جاتا ہے، اس میں بھی قلم اور روشنائی استعمال کیے بغیر سب کچھ لکھا جاتا ہے درآں حالیکہ میٹر والے وہاں موجود نہیں ہوتے۔ جب یہ ایک مخلوق کی کاری گری ہے تو اس اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا تصور کیا جا سکتا ہے جو سب کا خالق ہر چیز پر قادر اور جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو کہتا ہے ہو جا اور وہ وجود میں آ جاتی ہے۔ اس نے ہر چھوٹی بڑی چیز کو شمار کر رکھا ہے، آسمان و زمین میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز ایک واضح کتاب میں درج ہے۔ ۷۔ توکل علی اللہ کے ساتھ کن باتوں کا ہونا ضروری ہے: ہم نے یہ باتیں تقریب فہم کے لیے بیان کی ہیں تاکہ ذہن قرآن پر ایمان لانے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت کو اس کے واقع ہونے سے پہلے جانتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا محض جاننا کسی شخص کو مصیبت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ مصیبت مترتب ہونے والے اسباب کی بنا پر واقع ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ان اسباب و وسائل سے بے اعتنائی برتے جو اسے مصیبت سے بچا سکتے ہیں اور جن کو استعمال کرنے کا حکم اسلام نے دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ مبتلائے مصیبت ہو جائے تو وہ اپنا تحفظ نہ کرنے اور طبعی اسباب استعمال نہ کرنے کی بنا پر قصور وار قرار دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے: ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ﴾ (الشورٰی: ۳۰) ’’اور تم کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے پہنچتی ہے۔‘‘ اگر وہ مصیبت کو دفع نہ کر سکتا ہو تو وہ معذور ہے اور اُسے اس بات پر مطمئن ہو جانا چاہیے کہ یہ تقدیر الٰہی (فیصلہ الٰہی) ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَ أَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ وَ فِیْ کُلٍّ خَیْرٌ۔)) [1]
[1] مسلم: باب فی الامر بالقوۃ: ۲۶۶۴۔