کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 77
قبل تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ان تمام باتوں کا علم ہی جو واقع ہوئیں اور جو واقع ہوں گی اور جس طرح واقع ہونے والی ہیں ۔ یہ باتیں اللہ کے علم میں اس طرح ہیں کہ گویا ضبط تحریر میں لائی گئی ہوں ۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے لکھنے سے تعبیر فرمایا ہے۔ جس طرح کوئی شخص اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ تمہاری بات میرے دل میں نقش ہو گئی ہے، جبکہ وہ اس کو اہمیت دینا چاہتا ہو۔ یہ اس لیے کہ انسان نسیان کا عادی ہے اور اس نسیان کی ہی بناء پر اس کا نام انسان رکھا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں آیت: ﴿وَلَقَدْ عَہِدْنَا اِلٰی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا﴾ ’’ہم نے اس سے پہلے آدمی کو حکم دیا تھا، مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا۔‘‘ سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: وما سمی الانسان الانسیہ وما القلب ا لّا انہ یتقلب ’’انسان کو اس کے نسیان کی وجہ سے انسان کہا جاتا ہے، اور دل کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں تقلب (خیالات کا اُلٹ پھیر) ہوتا رہتا ہے۔‘‘ ایک قول یہ بھی ہے کہ انسان کو انسان اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مانوس ہوتا ہے کیونکہ وہ طبعاً اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے۔ خدائے واحد ہی کی ذات ایسی ہے جسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند اور نہ وہ بھولتا ہے۔ اس نے ہر چھوٹی بڑی چیز کو شمار کر رکھاہے۔ اس کا تمام چیزوں کو لکھنا اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ تمام چیزیں اس کے علم میں ہیں ۔ اس کی تخلیق کردہ کوئی چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے علم میں یہ چیزیں اس طرح ہیں کہ گویا ضبط تحریر میں آ گئی ہوں ۔ ہمیں نہ تو اس کتابت کی صنعت معلوم ہے اور نہ اس قلم کی جس سے لکھا گیا ہے اور نہ اس مقام کی جہاں لکھا گیا۔ اس مخلوق (انسان) نے اپنے ہنر سے ایک ایسا آلہ ایجاد کر لیا ہے جو بغیر ہاتھ، روشنائی اور قلم کے جو کچھ سنتا ہے لکھ لیتا ہے اور تمام باتیں ریکارڈ کرتا ہے درآں حالیکہ آلہ رکھنے والے سوتے رہتے ہیں اور ایک دوسرا آلہ ایسا ایجاد کیا ہے جو پانی اور بجلی کے خرچ کا حساب