کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 76
الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍo﴾ (الانعام: ۵۹) ’’اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔ اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا۔ خشکی اور تری میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر اس کو وہ جانتا ہے، اور زمین کی تہوں میں کوئی دانہ اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو ایک واضح کتاب میں درج نہ ہو۔‘‘ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ خَمْسُ مِأَۃِ عَامٍ۔)) [1] ’’اللہ نے مخلوقات کی تقدیریں زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے پانچ سو سال پہلے لکھ دیں ۔‘‘ نیز حدیث میں ہے: ((اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَہٗ اُکْتُبْ فَجَرٰی تِلْکَ السَّاعَۃَ بِمَا ہُوَ کَائِنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔)) [2] ’’اللہ نے سب سے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا لکھ تو اس وقت سے قیامت تک جو کچھ بھی پیش آنے والا تھا سب لکھا گیا۔‘‘ تقدیر کے لکھے جانے کے بارے میں ہم وہ باتیں پڑھیں اور سنیں جو اللہ اور اس کے رسول سے ثابت ہیں تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کتابت کا تعلق عالم غیب سے ہے لہٰذا اس کتابت پر محمول کرنا جسے ہم اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں یا اس قلم پر محمول کرنا جس سے ہم لکھتے ہیں ، صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی تعبیر ہے کہ اللہ کو اشیاء کا علم ان کا وقوع میں آنے سے
[1] مسلم: باب حجاج آدم موسٰی…ج: ۲۶۵۳۔ [2] مسند احمد: ۵/۳۱۸، ح: ۲۲۷۵۷۔