کتاب: عقائد وبدعات - صفحہ 75
سے پودے اگتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مخلوقات میں جو طبعی قوتیں موجود ہیں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں حقیقی تاثیر ہے جس طرح اسباب کی تاثیر مسببات (نتائج) میں ہوتی ہے اور اللہ سبحانہٗ سبب اور مسبب دونوں کا خالق ہے۔‘‘ ’’اَلْقَدْرُ قُدْرَۃُ الرَّحْمٰنِ ‘‘ …’’قدر (تقدیر) رحمن کی قدرت ہے۔ ‘‘ ابن عقیل نے اس قول کو مستحسن کہا اور فرمایا کہ امام احمد کا یہ مختصر قول قلوب کے لیے تشفی بخش ہے، اور علامہ ابن قیم نے اس کو شعر کا جامہ پہنایا: فحقیقۃ القدر الذی حارالوری فی شأنہ ہو قدرۃ الرحمٰن ’’تقدیر کی حقیقت جس کو جاننے کے لیے لوگ پریشان ہیں وہ رحمن کی قدرت ہے۔‘‘ ۶۔ تقدیروں کا لکھا جانا: تقدیروں کا لکھا جانا کتاب و سنت سے ثابت ہے، قرآن کریم میں موجود ہے: ﴿قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا﴾ (التوبۃ: ۵۱) ’’کہو ہمیں وہی پیش آئے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ رکھا ہے۔‘‘ ایک جگہ اور فرمایا: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo﴾ (الحدید: ۲۲) ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہو اور اس کو ہم نے پید اکرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھی ہو ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا: ﴿وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ